ایران نے انتہائی خاموشی کے ساتھ نیوکلیائی بم بنانے کی طرف قدم بڑھا دیا ہے۔ یہ جانکاری انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کی ایک تازہ رپورٹ میں دی گئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ایران صرف یورینیم افزودگی ہی نہیں کر رہا، بلکہ خاموشی کے ساتھ ایسے تجربات کر چکا ہے جو سیدھے طور پر نیوکلیائی بم بنانے کی سمت قدم بڑھانے کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ یہ سب اتنی خاموشی کے ساتھ ہوا ہے کہ امریکہ اور دیگر ممالک صرف تماش بین بنے رہ گئے۔
آئی اے ای اے کی رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب امریکہ اور ایران ایک نئے نیوکلیائی معاہدہ بہت جلد کرنے والے ہیں۔ آئی اے ای اے کے انکشاف نے اس معاہدہ کے لیے مشکلات پیدا کر دی ہیں، یعنی امریکہ اور ایران کے درمیان ماحول بہت بدل سکتا ہے۔ اسرائیل پہلے ہی ایران پر فوجی کارروائی کے اشارے دے چکا ہے، اس لیے ایران کے ہر قدم پر پوری دنیا کی نظر رہنے والی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی رپورٹ اس پرانی فائل سے نکلی ہے جو موساد نے 2018 میں تہران سے چوری کی تھی۔ آئی اے ای اے کی رپورٹ میں تو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ایران کی سرگرمیاں 20 سال قبل شروع ہوئی تھیں، اور اس نے ہر تفصیل کا ریکارڈ سنبھال کر رکھا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران کبھی بھی ان منصوبوں کو دوبارہ فعال کر سکتا ہے اور 2025 تک نیوکلیائی اسلحہ بنا لینے کی قابلیت حاصل کر سکتا ہے۔ ایران کی خفیہ سائٹ لیویزان-شیان اور ماریوان میں نیوٹران ڈٹیکٹر اور امپلوزن سسٹم بنائے گئے اور ان کا دھماکہ کے ذریعہ ٹیسٹ بھی کیا گیا۔
آئی اے ای اے نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ایران نے 2003 میں 2 مرتبہ امپلوزن ٹیسٹ کیے۔ ایک 15 فروری کو اور دوسرا 3 جولائی کو۔ یہ وہی تکنیک ہے جو نیوکلیائی بم کے کور کو بلاسٹ کرنے میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کا کوئی غیر فوجی استعمال نہیں ہوتا۔ رپورٹ میں تو یہاں تک کہا گیا ہے کہ ایران کے پاس کم از کم 9 بم بنانے لائق تکنیکی منصوبہ اور ڈیزائن تیار ہے۔ اپنی رپورٹ میں مزید ایک جگہ کا آئی اے ای اے نے کیا ہے۔ اس جگہ کا نام ہے ورامن۔ یہاں یورینیم کو گیس میں بدلنے کے لیے یو ایف 6 سلنڈر، ریڈیشن کی پیمائش والی مشینیں، ہائیڈروفلورک ایسڈ اور دیگر کیمیکلز ملے ہیں۔ ان سب کا استعمال بم بنانے کے عمل میں ہوتا ہے۔ ایران نے خود ہی انھیں 5 کنٹینرس میں سب سے زیادہ آلودہ مان لیا، یعنی کچھ تو چھپانے کی کوشش کی گئی تھی۔
اب سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ ایران نے 2009 سے 2018 کے درمیان ان نیوکلیائی مواد کو ترکز آباد نامی جگہ میں چھپا کر رکھا اور اب ان کا کوئی پتہ نہیں ہے۔ ساتھ ہی جبیر ابن ہیان نامی لیباریٹری سے جو یورینیم غائب ہوا ہے، وہ بھی اسی خفیہ پروجیکٹ کا حصہ بتایا گیا ہے۔ آئی اے ای اے کا کہنا ہے کہ ایران نے جانچ میں بار بار غلط یا متضاد جانکاری دی۔ کئی سوالوں کے جواب اب تک ادھورے ہیں۔ اس رپورٹ کو انٹرنیشنل تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ فار سائنس اینڈ انٹرنیشنل سیکورٹی نے بھی سنگین مانا ہے۔ اس کے سربراہ ڈیوڈ البرائٹ نے صاف طور پر کہا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے، یہ معاملہ سیدھے اقوام متحدہ سیکورٹی کونسل میں لے جایا جائے۔