ممبئی: بامبے ہائی کورٹ نے سوشل میڈیا پر پاکستان سے متعلق ایک پوسٹ شیئر کرنے پر 19 سالہ طالبہ کی گرفتاری کو مہاراشٹر حکومت کا غیر متوازن اور شدت پسندانہ ردعمل قرار دیتے ہوئے سخت تنقید کی ہے۔ عدالت نے طالبہ کی وکیل سے فوری ضمانت کی عرضی دائر کرنے کو کہا تاکہ اسے امتحان دینے کا موقع مل سکے۔
جسٹس گوری گوڈسے اور جسٹس سوم شیکھر سندرسن پر مشتمل تعطیلاتی بنچ نے طالبہ کی وکیل فرحانہ شاہ سے کہا کہ وہ فوری طور پر ضمانت کی درخواست داخل کریں اور عدالت نے کہا کہ درخواست آج ہی سنی جائے گی۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ لڑکی نے اگرچہ ایک ناپسندیدہ پوسٹ کی لیکن بعد میں اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا اور اس نے معافی مانگ کر پوسٹ ہٹا دی۔ اس کے باوجود حکومت نے اسے گرفتار کر کے جیل بھیج دیا، جو ایک طالبہ کے لیے سخت اور ناپسندیدہ قدم ہے۔
بنچ نے سوال اٹھایا کہ کیا ریاست چاہتی ہے کہ طلبہ اظہارِ رائے سے باز آ جائیں؟ کیا اتنی چھوٹی سی غلطی پر کسی طالبہ کو مجرم بنا دینا مناسب ہے؟ عدالت نے کہا کہ ایسے اقدامات نوجوانوں کو شدت پسندی کی طرف دھکیل سکتے ہیں۔
طالبہ اس وقت عدالتی حراست میں ہے۔ اس نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ کالج کا اس کے خلاف اقدام غیر منصفانہ، آمرانہ اور اس کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ عدالت نے کالج کے رویے پر بھی سوال اٹھایا اور کہا کہ تعلیمی اداروں کا کام صرف تعلیم دینا نہیں بلکہ کردار سازی اور اصلاح بھی ہے۔ اسے وضاحت کا موقع دینا چاہیے تھا، نہ کہ فوری اخراج۔ عدالت نے کہا، ’’آپ ایک ایسی عمر کی لڑکی کو سزا دے رہے ہیں جہاں غلطی کا امکان فطری ہوتا ہے۔‘‘
طالبہ نے سات مئی کو انسٹاگرام پر ’ریفارمیستان‘ نامی اکاؤنٹ سے ایک پوسٹ شیئر کی تھی جس میں پاکستان کے خلاف ممکنہ جنگ کے تناظر میں ہندوستانی حکومت پر تنقید کی گئی تھی۔ بعد میں جب اس پر عوامی ردعمل آیا اور دھمکیاں موصول ہوئیں تو اس نے دو گھنٹے کے اندر پوسٹ ہٹا کر معافی مانگ لی۔
ریاست کی طرف سے پیش ہونے والے ایڈیشنل سرکاری وکیل پی پی کاکڑے نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ پوسٹ قومی مفاد کے خلاف تھی۔ تاہم عدالت نے کہا کہ ایسا مواد، جو فوراً ہٹا دیا گیا ہو اور جس پر معافی مانگی گئی ہو، اسے قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دینا مبالغہ آرائی ہے۔
بنچ نے وکیل سے کہا کہ فوری ضمانت کی عرضی دائر کریں اور عدالت اس پر آج ہی غور کرے گی تاکہ طالبہ اپنی تعلیم اور امتحانات جاری رکھ سکے۔