نئی دہلی: آشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر علی خان محمود آباد کو ہریانہ کی ایک مقامی عدالت نے 14 دن کی عدالتی حراست میں بھیج دیا تھا۔ ان کی گرفتاری آپریشن سندور پر ان کی مبینہ قابل اعتراض سوشل میڈیا پوسٹ کے بعد ہوئی، جس پر بی جے پی کے یوتھ ونگ کے ایک رکن نے شکایت درج کرائی تھی۔ اس معاملے میں علی خان کے وکیل کپیل سبل نے کہا ہے کہ ان کی گرفتاری اظہار رائے کی آزادی کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے۔
پروفیسر علی خان نے اپنی پوسٹ میں آپریشن سندور کے دوران ہندوستانی فوج کی خواتین افسران کرنل صوفیہ قریشی اور ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک کی مختلف ثقافتیں ایک دوسرے کے قریب ہیں اور ہندوستان اپنی تنوع میں متحد ہے۔ انہوں نے پوسٹ میں کہا کہ اگرچہ کچھ لوگ فوج کی تعریف کر رہے ہیں، انہیں اسی طرح بلا جواز تشدد اور نفرت کے شکار افراد کے لیے بھی آواز اٹھانی چاہیے۔
ہریانہ پولیس نے علی خان پر فوج کی عزت کو نقصان پہنچانے اور خواتین فوجی افسران کی توہین کرنے کا الزام لگایا ہے۔ علی خان کی گرفتاری کے خلاف انہوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے، جہاں آج کیس کی سماعت ہوگی۔ وکیل نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ ایف آئی آر بغیر کسی ٹھوس وجہ کے درج کی گئی ہے اور پروفیسر کی فوری رہائی ہونی چاہیے۔
یہ کیس اظہار رائے کی آزادی اور فوجی حساسیت کے درمیان ایک اہم قانونی بحث کو جنم دے رہا ہے اور اس پر ملک بھر میں توجہ مرکوز ہے۔ علی خان کی گرفتاری کے بعد سوشل میڈیا پر ان کے حق میں اور مخالفت میں دونوں طرح کے ردعمل آئے ہیں۔ سپریم کورٹ کی سماعت سے اس معاملے میں آئندہ کا قانونی راستہ واضح ہوگا۔