دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والا ملک ہندوستان، ایک ایسا سیاسی منظرنامہ رکھتا ہے جو تنوع، پیچیدگی اور تیزی سے بدلتے ہوئے رجحانات سے بھرپور ہے۔ اس جمہوریت کے ہر پہلو میں مالی وسائل یا “فنڈنگ” کا گہرا عمل دخل ہے۔ چاہے وہ انتخابی مہمات ہوں، پارٹی تنظیمی ڈھانچے کی مضبوطی ہو یا عوامی رابطہ مہم، مالی وسائل کی فراہمی اس سارے عمل کی روح ہے۔ ہندوستانی سیاست میں مالی وسائل کی اہمیت گزشتہ دو دہائیوں میں غیر معمولی طور پر بڑھی ہے، جس سے جمہوریت کے معیار اور شفافیت پر کئی سوالات بھی اٹھتے ہیں۔
سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کو انتخابات جیتنے کے لیے جس سب سے بڑی چیز کی ضرورت ہوتی ہے، وہ ہے مالی وسائل۔ ایک مؤثر انتخابی مہم کے لیے اشتہارات، ریلیاں، سفر، تشہیری مواد، ڈیجیٹل مہم، رضاکاروں کی تنخواہیں اور دیگر بے شمار اخراجات ہوتے ہیں۔ ان سب پر بھاری مالی اخراجات آتے ہیں، جن کا انتظام کرنا ہر سیاسی جماعت کے لیے درد سر لیکن ضروری ہے۔
ہندوستان میں لوک سبھا، ودھان سبھا، پنچایتی راج اور میونسپل سطح پر ہزاروں انتخابات ہوتے ہیں، اور ہر سطح پر پیسہ اہم کردار ادا کرتا ہے۔ پیسے کی کمی سیاسی کامیابی کے امکانات کو محدود کر دیتی ہے، جبکہ زیادہ مالی وسائل رکھنے والے امیدوار یا جماعتیں زیادہ مؤثر انداز میں عوام تک اپنی بات پہنچانے میں کامیاب ہوتی ہیں۔
ہندوستان میں انتخابی اخراجات ہر الیکشن کے ساتھ بڑھتے جا رہے ہیں۔ ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر) کے مطابق، 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے اربوں روپے خرچ کیے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق، یہ انتخابات دنیا کے مہنگے ترین انتخابات میں سے ایک تھے، جن میں کل اخراجات کروڑ روپے ہونے کا امکان ہے۔
یہ خرچ صرف امیدواروں یا جماعتوں کے ذریعہ ہی نہیں کیا جاتا بلکہ پارٹی کے حامی صنعتی گروپوں، کارپوریٹ سیکٹر اور مختلف بااثر شخصیات بھی اس میں مالی تعاون فراہم کرتے ہیں اور ظاہر ہے کے وہ اس لئے تو خرچ کرتے نہیں کہ ان کو آنے والی سرکار یا جیتنے والے شخص سے کوئی امید نہیں۔ تاہم، اس عمل میں شفافیت کی شدید کمی ہے اور یہ جمہوریت کے لیے خطرناک ہو سکتی ہے۔
ہندوستان میں سیاسی جماعتوں کو انتخابات کے لئے جو فند ملتے ہیں ان میں بڑا حصہ کارپوریٹ ڈونیشن کا ہوتا ہے اور کارپوریٹ ڈونیشن یا عطیات کے بدلے میں دینے والا فائدے کی امید رکھتا ہے یعنی ان عطیات کے ذریعہ پالیسی سازی میں عطیات دینے والوں کا اثر بڑھ جاتا ہے۔
چند جماعتیں عوام سے چندہ اکٹھا کرنے کی کوشش کرتی ہیں، جیسا کہ عام آدمی پارٹی نے دہلی انتخابات کے دوران کیا لیکن بعد میں ان پر بھی یہ الزامات لگے کہ انہوں نے پارٹی کی وسعت کے لئے کچھ معاملوں میں سمجھوتہ کیا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عوام سے چندہ شفافیت کا بہترین ماڈل ہو سکتا ہے لیکن سیاسی اخراجات اتنے زیادہ بڑھ گئے ہیں کہ اس پر عمل کرنا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔
مالی وسائل کی اہمیت جتنی بڑھی ہے، اس میں شفافیت اور جوابدہی اتنی ہی کم ہوئی ہے۔ بیشتر سیاسی جماعتیں اپنی آمدنی اور اخراجات کی مکمل تفصیل الیکشن کمیشن کو فراہم نہیں کرتیں۔ ایسا نظام غیر مساوی مسابقت کو جنم دیتا ہے، جہاں چھوٹی جماعتیں یا آزاد امیدوار بڑی جماعتوں کے مقابلے میں مالی طور پر کمزور ہوتے ہیں۔ نتیجتاً، پالیسی سازی بھی انہی جماعتوں کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے جن کے پیچھے مالی طاقت موجود ہوتی ہے۔
مالی وسائل رکھنے والے ادارے یا افراد صرف چندہ دے کر الگ نہیں ہو جاتے، بلکہ وہ اس کے بدلے میں پالیسیوں پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلاً، اگر کوئی صنعتی گروپ کسی پارٹی کو بھاری چندہ دیتا ہے، تو وہ امید کرتا ہے کہ حکومت بننے کے بعد اسے کاروباری فائدے پہنچائے جائیں گے، جیسے کہ ٹیکس میں چھوٹ، ٹھیکے، یا زمین کی الاٹمنٹ۔ یہ طرز عمل عوامی مفادات کو پیچھے چھوڑ کر اشرافیہ کے مفادات کو ترجیح دینے کا سبب بنتا ہے۔ اس سے جمہوریت کمزور ہوتی ہے اور عوام کا نظام پر اعتماد متزلزل ہو جاتا ہے۔ سیاسی فنڈنگ میں شفافیت کی کمی کرپشن کو جنم دیتی ہے۔ انتخابی مہمات کے دوران کالا دھن، رشوت اور غیر قانونی ذرائع سے حاصل فنڈز کا استعمال عام ہو جاتا ہے۔
ہندوستانی سیاست میں مالی وسائل کی منفی اثرات کو کم کرنے اور جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے کچھ اہم اصلاحات ناگزیر ہیں، جیسے عطیہ دہندگان اور وصول کنندگان کی تفصیلات عوام کے سامنے آنی چاہئیں، سیاسی جماعتوں کے مالی حسابات کا آڈٹ ہونا چاہئے اور اس کو عوامی سطح پر پیش کیا جانا چاہئے۔ کارپوریٹ ڈونیشن کی حد مقرر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایک کمپنی ایک مخصوص رقم سے زیادہ چندہ نہ دے سکے، تاکہ پالیسی سازی پر دباؤ کم ہو، عوامی فنڈنگ کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے اور اس تعلق سے جدید ٹیکنالوجی کے ذریعہ یعنی ڈیجیٹل فنڈنگ کرنے کے ذریعہ شفافیت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
ہندوستانی سیاست میں مالی وسائل کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ یہ انتخابی کامیابی، پارٹی تنظیم، اور حکومت سازی کے لیے ایک لازمی عنصر بن چکا ہے۔ تاہم، اگر اس عمل میں شفافیت، منصفانہ ضابطے اور قانونی جوابدہی نہ ہو تو یہی مالی وسائل جمہوریت کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔
مضبوط جمہوریت کی بنیاد صرف ووٹ ڈالنے کے حق پر نہیں بلکہ اس پر بھی ہے کہ سیاسی جماعتیں اور حکومتیں عوام کے سامنے جوابدہ ہوں اور ان کے مالی معاملات مکمل طور پر شفاف ہوں اور ایسی سیاسی پارٹیاں حکومت مالی وسائل کی بنیاد پر نہ بنا پائیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہندوستانی سیاست میں مالی وسائل کے استعمال کو ضابطے میں لانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں، تاکہ حقیقی عوامی نمائندگی، شفافیت اور انصاف پر مبنی سیاسی نظام قائم ہو سکے۔ کاش ہماری ترجیحات ملک کے سیاسی نظام کو بہتر بنانے کی ہوں۔