امریکی وزارت خارجہ نے ہفتے کے روز واضح کیا ہے کہ اگر روس اور یوکرین کے درمیان جاری مذاکرات میں کوئی نمایاں پیش رفت نہ ہوئی تو امریکہ اپنے ثالثی کردار سے دستبردار ہو سکتا ہے۔ یہ عندیہ ایسے وقت میں دیا گیا ہے جب امریکہ نے یوکرین کو ایف-16 جنگی طیاروں کے پرزے فراہم کرنے کے معاہدے کی بھی تصدیق کی ہے۔
وزارت خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے ’فوکس نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے کہا، “ہمارا موقف بدستور یہ ہے کہ ہم یوکرین میں امن مذاکرات میں ثالثی کی حمایت کرتے ہیں، لیکن اگر بات چیت میں کوئی مثبت پیش رفت نظر نہیں آتی تو ہم اپنے کردار پر نظرثانی کریں گے۔”
ٹیمی بروس نے ان میڈیا رپورٹس کی بھی تردید کی جن میں کہا گیا تھا کہ امریکہ یوکرین سے کنارہ کشی اختیار کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا، “اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم جنگ بندی کی خواہش ترک کر رہے ہیں یا امن کے لیے کوششیں ختم کر دیں گے۔ ہم بدستور اس تنازع کو حل کرنے کی کوششیں جاری رکھیں گے۔”
اسی تناظر میں امریکی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے یوکرین کو ایف-16 جنگی طیاروں کے پرزے فراہم کرنے کی منظوری دے دی ہے، اور یوکرینی پائلٹوں کی تربیت کے لیے ایک نیا پروگرام بھی شروع کیا جا رہا ہے۔ یہ وہی معاہدہ ہے جس کی منظوری سابق صدر جو بائیڈن نے جنگ کے ابتدائی دنوں میں دی تھی۔
وزارت نے مزید کہا کہ کانگریس کو اس 31 کروڑ ڈالر کے معاہدے سے باضابطہ طور پر مطلع کر دیا گیا ہے، جس میں مرمت، دیکھ بھال اور تکنیکی خدمات بھی شامل ہیں۔
ادھر امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے بھی اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ “یہ جنگ جلد ختم ہونے والی نہیں۔ دونوں فریق اب ایک دوسرے کے امن سے متعلق مطالبات جان چکے ہیں، اور فیصلہ اب ان کے ہاتھ میں ہے کہ وہ آگے بڑھنا چاہتے ہیں یا نہیں۔”
وینس نے کہا کہ جب تک دونوں جانب سے کوئی ٹھوس تبدیلی نہ آئے، اس تنازع کا خاتمہ ممکن نہیں لگتا۔ دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے خبردار کیا ہے کہ اگر یوکرین اور روس کے درمیان امن معاہدے کی جانب کوئی سنجیدہ پیش رفت نہ ہوئی تو صدر ٹرمپ ثالثی کے امریکی کردار پر نظرثانی کریں گے۔
روبیو نے “فوکس نیوز” سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، “فریقین اگرچہ بات چیت میں کچھ قریب آئے ہیں، لیکن اب بھی کافی دور ہیں۔ جلد کوئی ٹھوس قدم نہ اٹھایا گیا تو امریکہ کے لیے ثالثی جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا۔”
انہوں نے کہا کہ امریکہ کو بیک وقت کئی عالمی چیلنجز درپیش ہیں، جن میں چین سے تجارتی کشیدگی اور ایران کا جوہری منصوبہ شامل ہے۔ روبیو نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ “یوکرین کی جنگ کا کوئی فوجی حل نہیں، کیونکہ روس یوکرین پر مکمل قبضہ نہیں کر سکتا اور نہ ہی یوکرین روس کو 2014 سے پہلے کی حالت میں واپس دھکیل سکتا ہے۔”