ایک زمانہ تھا جب ہندوستان کی جامعات سوال اٹھانے، تحقیق کرنے اور فکری مباحثے کا گہوارہ سمجھی جاتی تھیں۔ مگر آج وہی ادارے ایسے مقامات میں تبدیل ہو چکے ہیں جہاں اساتذہ کے قلم پر بھی پہرہ ہے اور طالب علموں کی سوچ پر بھی نگرانی۔ میرٹھ کی چودھری چرن سنگھ (سی سی ایس) یونیورسٹی سے وابستہ میرٹھ کالج میں پیش آنے والا حالیہ واقعہ — جہاں ایک پروفیسر کو صرف اس بنیاد پر امتحانی کام سے محروم کر دیا گیا کہ سوالیہ پرچے میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) سے متعلق ایک آپشن پر بعض گروپوں کو اعتراض ہو گیا — محض ایک معمولی واقعہ نہیں، بلکہ پورے تعلیمی نظام اور فکری آزادی پر ایک کاری ضرب ہے۔
یہ کیسا معاشرہ ہے جہاں سوالات سے خوف محسوس کیا جاتا ہے، اور وہ بھی ایک ایسی تنظیم کی طرف سے جو خود کو سب سے منظم اور ’قوم پرست‘ کہتی ہے؟ اگر کوئی تنظیم واقعی اتنی توانا ہے تو اسے سوالات سے ڈرنے کی کیا ضرورت؟ کیا طاقتور ہونا عدم برداشت کی سند بن چکا ہے؟
یہ ایک کثیر جوابی سوال (ایم سی کیو) تھا، جس میں صرف ایک جواب درست ہوتا ہے۔ باقی آپشنز لازماً غلط یا مبالغہ آمیز بھی ہو سکتے ہیں۔ تو پھر کیا ہم اس بنیاد پر سزا سنائیں گے کہ آپشن میں کچھ قابل اعتراض تھا؟ اگر ہاں، تو پھر ہمیں ہر پرچہ، ہر نصاب اور ہر کتاب پر پابندی لگانی ہو گی۔
اس سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے معاملے کی تفتیش یا تعلیمی تجزیے کے بجائے فوری سزا سنائی۔ پروفیسر سیما پنوار نے تحریری وضاحت دی، ماخذ بتایا کہ سوالات ایم لکشمی کانت کی نصابی کتاب سے لیے گئے تھے، مگر انہیں معاف نہیں کیا گیا۔ ان کا قصور کیا تھا؟ یہی کہ انہوں نے وہ سوال پوچھ لیا جس میں آر ایس ایس پر تنقیدی زاویہ شامل تھا۔
یہ وہی رویہ ہے جو ہم روز میڈیا، سوشل میڈیا اور پارلیمنٹ میں دیکھتے ہیں۔ خود ہی الزام لگانا، خود ہی مقدمہ چلانا، اور خود ہی سزا سنانا۔ جمہوریت کے بنیادی اصول — جیسے شنوائی، وضاحت یا نیت کا تجزیہ — اب غیر متعلقہ ہو چکے ہیں۔
آج کے ہندوستان میں اقتدار سے وابستہ تنظیمیں کسی بھی تنقید کو قومی توہین سے کم نہیں سمجھتیں۔ اور اگر تنقید ہندو قوم پرستی، آر ایس ایس یا ہندوتوا پر ہو، تو قیامت آ جاتی ہے۔ ایسی صورتحال میں صرف دو راستے بچتے ہیں، یا تو خاموش رہو، یا سر جھکا کر معافی مانگو۔
علمی برادری کی بے بسی بھی افسوسناک ہے۔ اساتذہ، محققین اور مؤرخین خاموش ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ زبان کھولی تو روزی چلی جائے گی۔ طلبہ کی تنظیمیں یا تو حکومت کے ہمنوا ہیں یا خوف زدہ۔ ایسے میں جو تھوڑے بہت ذی شعور لوگ باقی ہیں، وہ بھی دفاعی انداز میں اپنے جملے لکھتے ہیں، ہر سطر کے بعد وضاحت دیتے ہیں کہ ’ہم کسی کی دل آزاری نہیں چاہتے۔‘
لیکن سوال یہ ہے، اگر سچ بولنے پر بھی معذرت کرنی پڑے تو تحقیق کا کیا فائدہ؟ اگر سوال پوچھنے پر بھی سزا ہو تو تعلیم کا کیا مقصد؟
ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ کیا تعلیمی اداروں کو نظریاتی تربیت گاہوں میں تبدیل کیا جا رہا ہے؟ کیا یونیورسٹیاں اب صرف وہی سچ مانیں گی جو حکومت کو منظور ہو؟ کیا طالب علم اب تاریخ کو کتابوں سے نہیں بلکہ سیاسی منشوروں سے سیکھیں گے؟
حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں، مگر علم، سوال، تحقیق اور آزادی ٔ رائے وہ بنیادیں ہیں جو کسی بھی معاشرے کی شناخت بناتی ہیں۔ اگر ان بنیادوں پر سیاست ہونے لگی، اور ہر استاد کو شک کی نظر سے دیکھا جانے لگا، تو ذہنوں کا ارتقاء رک جائے گا۔ اور جس دن ذہن رک جائیں، وہ دن قوم کی تنزلی کا آغاز ہو گا۔
آج وقت ہے کہ اہلِ قلم، اہلِ دانش اور تعلیمی ادارے مل کر یہ سوال اٹھائیں، کیا ہم سوال سے ڈرنے لگے ہیں؟ کیا تعلیم کا مقصد صرف تائید ہے یا تحقیق بھی؟ اور کیا ہم واقعی ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جہاں ایک آپشن بھی اقتدار کو ہلا دیتا ہے؟ اگر ان سوالات کا جواب ’خاموشی‘ ہے، تو سمجھ لیجیے کہ نقصان صرف ایک استاد کا نہیں، پوری قوم کا ہے۔