روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ ایک اہم موڑ پر پہنچ چکی ہے۔ تین سال سے جاری اس تنازع نے عالمی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں لیکن اب اس جنگ کو ختم کرنے کی ایک بڑی سفارتی کوشش کی جا رہی ہے۔ امریکہ اور روس کے اعلیٰ حکام آج سعودی عرب میں ایک اہم اجلاس کے لیے ملاقات کر رہے ہیں، جس کا مقصد مذاکرات اور اتفاقِ رائے کے امکانات تلاش کرنا ہے۔
امریکی وفد میں وزیرِ خارجہ مارکو روبیو، قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز اور خصوصی مندوب اسٹیو وٹکاف شامل ہیں، جبکہ روسی وفد کی قیادت وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف اور صدر ولادیمیر پوتن کے مشیر یوری اوشاکوف کر رہے ہیں۔ یہ ملاقات امریکہ کی پالیسی میں ایک ممکنہ تبدیلی کی نشاندہی کر رہی ہے، جہاں روس کو مزید الگ تھلگ کرنے کے بجائے سفارتی حل پر زور دیا جا رہا ہے۔
یوکرینی صدر ولادیمیر زیلینسکی نے امریکہ اور روس کے درمیان مذاکرات پر سخت موقف اپنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یوکرین کی شمولیت کے بغیر کسی بھی معاہدے کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ زیلینسکی کے مطابق اگر کیف کو نظرانداز کیا گیا تو یہ مذاکرات بے معنی ہوں گے۔
امریکہ کے اس قدم پر یورپی ممالک میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے یوکرین جنگ پر یورپی رہنماؤں کا ایک خصوصی اجلاس طلب کر لیا ہے۔ فرانسیسی وزیرِ خارجہ جین-نوئل بیروٹ نے کہا کہ امریکہ کے اقدامات سے متعلق خدشات کے پیش نظر یورپ کو اپنی حکمتِ عملی پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
مذاکرات میں سب سے اہم معاملہ یورپی ممالک کے کردار کا ہوگا، کیونکہ یوکرین کو مدد فراہم کرنے میں یورپی اقوام کا نمایاں حصہ رہا ہے۔ زیلینسکی کا کہنا ہے کہ وہ پوتن سے مذاکرات کے لیے اس وقت تک تیار نہیں جب تک امریکہ اور یورپی ممالک کسی مشترکہ لائحہ عمل پر متفق نہ ہوں۔
ایک اور اہم معاملہ نیٹو میں یوکرین کی شمولیت اور روس کے قبضے میں موجود علاقوں کا مستقبل ہوگا۔ زیلینسکی واضح کر چکے ہیں کہ وہ روس کے قبضے کو قانونی حیثیت نہیں دیں گے، جبکہ ڈونباس کے متنازع علاقے پر بھی بات چیت ہو سکتی ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امریکہ یوکرین پر دباؤ ڈال سکتا ہے تاکہ وہ روس کے ساتھ کسی سمجھوتے پر راضی ہو جائے، جو یوکرین کے لیے بڑا خطرہ ثابت ہو سکتا ہے۔
اگر یوکرین نے روس اور امریکہ کی شرائط نہ مانیں تو خدشہ ہے کہ ملک دو حصوں میں بٹ سکتا ہے۔ یوکرینی فوج کے ایک اعلیٰ افسر نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پوتن کی حکمتِ عملی یوکرین کو تقسیم کرنے پر مبنی ہو سکتی ہے، جو اس تنازع کو مزید پیچیدہ بنا سکتی ہے۔