نئی دہلی: سپریم کورٹ نے گئو کشی کے شبہ میں (موب لنچنگ) ہجومی تشدد سے متعلق ایک درخواست سننے سے انکار کر دیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ وہ پہلے ہی بھیڑ کے تشدد پر تفصیلی احکامات جاری کر چکی ہے اور ملک بھر میں پیش آنے والے ہر واقعے کی نگرانی کرنا اس کا کام نہیں ہے۔ عدالت نے درخواست گزار کو ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا۔
یہ درخواست نیشنل فیڈریشن آف انڈین ویمن (این ایف آئی ڈبلیو) نامی تنظیم نے دائر کی تھی، جس میں ریاستی حکومتوں پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ ہجومی تشدد کے خلاف سخت کارروائی نہیں کر رہیں۔ درخواست میں پولیس کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھائے گئے اور کہا گیا کہ ’گئو رکشا‘ کے نام پر ہونے والے تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ درخواست میں آسام، چھتیس گڑھ، تلنگانہ، مہاراشٹر، اوڈیشہ اور بہار میں ہونے والے چند واقعات کا حوالہ دیا گیا تھا۔
این ایف آئی ڈبلیو نے عدالت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ 2018 کے تحسین پونا والا بنام حکومتِ ہند کیس میں دیے گئے اپنے فیصلے کو مکمل طور پر نافذ کرنے کی ہدایت دے۔ درخواست گزار نے کہا کہ ریاستی حکومتیں ہجومی تشدد کی روک تھام میں سنجیدگی نہیں دکھا رہیں اور ایسے واقعات کے باوجود پولیس سخت کارروائی سے گریز کرتی ہے۔
اس معاملے میں حکومت کی جانب سے پیش ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت کو بتایا کہ وہ ہر ریاست کا جواب نہیں دے سکتے لیکن سپریم کورٹ پہلے ہی ہجومی تشدد پر واضح ہدایات جاری کر چکی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پچھلے سال نافذ کیے گئے نئے فوجداری قانون، بھارتیہ نیائے سنہیتا (بی این ایس) میں بھی ہجومی تشدد کو جرم قرار دیا گیا ہے۔ اگر کہیں ان قوانین اور عدالتی احکامات پر عمل نہیں ہو رہا تو یہ مسئلہ متعلقہ فورم میں اٹھایا جا سکتا ہے۔