بنگلہ دیش مسلسل عدم استحکام کے دور سے گزر رہا ہے۔ شیخ حسینہ حکومت کے تخت پلٹ اور اس کے بعد محمد یونس کی قیادت میں بنی عبوری حکومت بھی ملک کے بگڑتے حالات پر قابو نہیں پا سکی ہے۔ اب ریلوے ملازمین نے یونس حکومت کے لیے مصیبت کھڑی کر دی ہے۔ بنگلہ دیش میں ٹرین خدمات ٹھپ ہو گئی ہے۔ دراصل ریلوے ملازمین اضافی کام کے لیے فائدہ کا مطالبہ کرتے ہوئے ملک گیر پیمانے پر بے مدت ہڑتال پر چلے گئے ہیں۔ ریلوے ملازمین کی اس ہڑتال سے ہزاروں لوگوں کی زندگی متاثر ہو گئی ہے۔ ٹرین خدمات ٹھپ ہو جانے مسافروں میں زبردست غصہ ہے اور وہ اس کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
بنگلہ دیش ریلوے رننگ اسٹاف اور ورکرس ایسو سی ایشن پنشن اور گریچویٹی بینیفٹ سے جڑی پریشانیوں کی وجہ سے ہڑتال کر رہا ہے۔ ریلوے ملازمین اوور ٹائم سیلری اور پنشن فائدہ کو لے کر طویل عرصے سے چل رہے تنازعہ کی وجہ سے ہڑتال پر چلے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں یونین کی طرف سے کہا گیا ہے کہ افسروں کو اپنے مطالبات پورا کرنے کے لیے پیر تک کا وقت دیا گیا۔
ریلوے ملازمین کی ہڑتال سے تقریباً 400 مسافر ٹرینوں کی آمد و رفت متاثر ہوئی ہے۔ اس میں 100 سے زیادہ بین شہری خدمات اور بنگلہ دیش کی ریلوے کی طرف سے چلنے والی تین درجن سے زیادہ مال گاڑیاں شامل تھیں۔ ریلوے روزانہ تقریباً 250000 مسافروں کو لے جاتا ہے۔
بنگلہ دیش کی وزارت ریل نے کہا ہے کہ ٹرین مسافروں کو منگل سے کچھ اہم ٹرین راستوں پر چلنے والی بس خدمات پر اپنے پہلے سے بُک کئے گئے ٹکٹوں کا استعمال کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ وزارت نے ملازمین سے ہڑتال واپس لینے کی اپیل کرتے ہوئے اپنے بیان میں کہا کہ ریلوے ملازمین، جن میں ڈرائیور، اسسٹنٹ ڈرائیور، گارڈ اور ٹکٹ چیکر شامل ہیں، افرادی قوت کی کمی کی وجہ سے مستقل طور پر مقررہ گھنٹوں سے زیادہ کام کرتے ہیں۔ بدلے میں انہیں روایتی طور سے ان اضافی گھنٹوں پر حساب کیے گئے پنشن فائدہ کے ساتھ اضافی تنخواہ ملتی ہے۔
کشتیا کے جنوب مغربی ضلع کے ایک دیسی لوک گلوکار رضا فقیر نے کہا کہ ہمارے پاس ایک میوزک کانسرٹ میں حصہ لینے کے لیے آج دوپہر کے لیے ٹرین ٹکٹ تھے۔ لیکن اب ہمیں وہاں جانے کے لیے بس ٹکٹ خریدنا پڑا، اس لیے ہمیں دوگنی ادائیگی کرنی پڑی۔