نئی دہلی: دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر (ایل جی) وی کے سکسینہ نے بدھ کو سپریم کورٹ میں درختوں کے غیر قانونی طور پر کاٹے جانے کے معاملے میں اپنا دفاع کرتے ہوئے معافی مانگی ہے۔ یہ درخت دہلی کے رِج جنگلاتی علاقے میں کاٹے گئے تھے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس جے بی پاردی والا و منوج مشرا پر مشتمل بنچ نے ایل جی سے وضاحت طلب کی تھی کہ عدالت کے احکامات کے باوجود درخت کیوں کاٹے گئے؟
ایل جی سکسینہ نے اپنے حلف نامے میں کہا کہ انہیں درخت کاٹنے سے متعلق عدالت کی اجازت لینے کا اس وقت تک علم نہیں تھا، جب تک کہ درخت کاٹنے کا کام شروع نہیں ہو گیا۔ انہوں نے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں ان کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا کہ عدالت کے احکامات کی خلاف ورزی کی جائے اور یہ سب کچھ بدقسمتی سے ہوا۔ ایل جی نے کہا، ’’ڈی ڈی اے کی جانب سے اجازت لیے بغیر درخت کاٹے جانے کا واقعہ انتہائی افسوسناک ہے اور میں اس پر معذرت خواہ ہوں۔‘‘
ایل جی نے بتایا کہ فروری میں انہوں نے مرکزی مسلح پولیس فورسز انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (سی اے پی ایف آئی ایم ایس) کی سڑک کی چوڑائی کے پروجیکٹ کا جائزہ لیا تھا، جب انہیں بتایا گیا تھا کہ درخت کاٹنے کی اجازت کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ تاہم، انہیں اس بات کا علم نہیں تھا کہ اس کے لیے سپریم کورٹ کی اجازت بھی درکار ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ درخت کاٹنے کا کام 16 فروری کو شروع ہوا اور انہیں 21 مارچ کو پتہ چلا کہ عدالت سے اجازت درکار ہے۔
ایل جی نے ڈی ڈی اے کے وائس چیئرمین سبھاشیش پانڈا کو توہین عدالت کی کارروائی سے بری کرنے کی بھی درخواست کی۔ ان کا کہنا تھا کہ پانڈا اُس وقت سرجری کے بعد صحت یاب ہو رہے تھے جب درخت کاٹنے کا واقعہ پیش آیا۔
ایل جی سکسینہ نے بتایا کہ 170 درخت اور 4000 پودے پہلے ہی لگائی جا چکے ہیں جبکہ مزید 200 درخت اور 500 پودے اگلے سات دنوں میں لگائے جائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ درخت کاٹنے کا کام 2200 کروڑ روپے کے پبلک فنڈ سے چلنے والے ایک اہم پروجیکٹ کا حصہ تھا۔ مزید برآں، ایل جی نے بتایا کہ اصل میں 642 درخت کاٹے گئے تھے نہ کہ 1100 جیسا کہ پہلے عدالت کو بتایا گیا تھا۔