راجکوٹ سے کانگریس امیدوار پریش دھنانی اس مرتبہ مرکزی وزیر پرشوتم روپالا کے خلاف میدان میں ہیں۔ راجکوٹ میں مقامی کمیونٹی اپنی خواتین کے بارے میں قابل اعتراض تبصرہ کے لیے روپالا کے خلاف سڑک پر اتریں اور زوردار انداز میں نعرہ بازی بھی کی۔ ایسے ماحول میں گجرات میں اپوزیشن کے سابق لیڈر دھنانی کی امیدواری مضبوط دکھائی دے رہی ہے۔ اس انٹرویو میں دھنانی نے کئی اہم نکات پر اپنا نظریہ سامنے رکھا اور اپنی فتح کے امکانات سے متعلق وہ پراعتماد دکھائی دیے۔ پیش ہیں اس انٹرویو کے اہم اقبتاسات…
آپ انتہائی مشکل سیٹ سے لڑ رہے ہیں، اس بارے میں آپ کیا سوچتے ہیں؟
گجرات میں بی جے پی ہمیشہ کامیاب رہی کیونکہ یہاں ذات اور مذہب کے ایجنڈے پر ووٹ ہوتا ہے۔ میں اسے روکنے کے لیے انتخاب لڑ رہا ہوں۔ بی جے پی نے کبھی اپنے کام پر ووٹ نہیں مانگا۔ گرام پنچایت سے پارلیمنٹ، سرپنچ سے وزیر اعظم تک بی جے پی تخریب کاری ہتھکنڈے سے ووٹ مانگتی رہی۔ لوگ اب اس کھیل کو سمجھنے لگے ہیں اور بی جے پی کے لیے مشکلیں کھڑی ہونے لگی ہیں۔
20 سال قبل آپ نے روپالا کو امریلی میں ہرایا تھا۔ کیا اس بار بھی پُرامید ہیں؟
2024 کا انتخاب ہندوستانی آئین کو بچانے کے لیے ہے۔ ہندوستان کا نظریہ تنوع میں اتحاد پر مبنی ہے۔ آج یہ نظریہ خطرے میںہے۔ راجکوٹ میں کون جیتے گا، یہ ذاتی ایشو نہیں ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ انڈیا بلاک جیتے۔
مقامی ناراضگی (روپالا کے خلاف) کا انتخاب پر کتنا اثر پڑے گا؟
یہ ناراضگی اور مخالفت کسی ایک طبقہ تک محدود نہیں ہے۔ اس سے قبل بی جے پی نے دلت خواتین کی بے عزتی کی تھی۔ پاٹیدار تحریک کے دوران پاٹیدار خواتین سے مار پیٹ کی۔ اب کشتریہ خواتین کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ یہ اقتدار کا تکبر ہے۔ خواتین اس مرتبہ بی جے پی کو اقتدار سے باہر کر دیں گی۔
2022 کے اسمبلی انتخاب میں کانگریس کی کارکردگی گجرات میں اب تک کی سب سے خراب کارکردگی تھی۔ آپ کو لگتا ہے کہ کانگریس اب مضبوط بن کر سامنے آئی ہے؟
2022 کی شکست کا سبب کانگریس اور عآپ کے درمیان ووٹوں کی تقسیم تھی۔ اس بار دونوں ساتھ ہیں۔ کئی چھوٹے گروپ بھی ساتھ ہیں۔ یعنی 2024 کا نتیجہ کافی مختلف ہوگا۔
یہ نریندر مودی کی آبائی ریاست ہے۔ انھوں نے ’ابکی بار، 400 پار‘ کا نعرہ دیا ہے۔ آپ کا اتحاد اس سے کس طرح نمٹے گا؟
بی جے پی خود اس بات کا احساس ہے کہ 400 سیٹیں پار نہیں کر سکتی۔ اب تو وہ اس کی بات بھی نہیں کرتے۔
گزشتہ ماہ آپ کے کچھ اراکین اسمبلی اور اہم لیڈران بی جے پی میں شامل ہو گئے۔ کیا کانگریس لیڈرس کو بھی پارٹی کے مستقبل پر زیادہ بھروسہ نہیں ہے؟ ووٹرس اسے کس طرح دیکھیں گے؟
بی جے پی سمجھ گئی ہے کہ اس مرتبہ وہ جیت نہیں پائے گی۔ اسی لیے جو لوگ اور پارٹیاں بے باکی سے ان کا مقابلہ کر رہی ہیں، ان کو پریشان کیا جا رہا ہے۔ لیکن اس بار لڑائی عوام اور بی جے پی کے درمیان ہے۔ عوام اسی کو ووٹ دے گی جو بی جے پی کے خلاف کھڑا ہوگا۔
سورت کا واقعہ فکر انگیز ہے۔ آپ کو نہیں لگتا کہ اس سے عوام کے سامنے کانگریس کے اندر اعتماد اور ہم آہنگی کی کمی ظاہر ہوتی ہے؟
سرکاری مشینری کا غلط استعمال کرنا ہی ’گجرات ماڈل‘ ہے۔ اب پورا ملک اسے دیکھ رہا ہے۔ سورت میں جو ہوا، اس سے گجرات اور باہر کے لوگ غصے میں ہیں۔ آزادانہ و غیر جانبدارانہ انتخاب اور جمہوریت کی بے عزتی کرنا بی جے پی کا کردار ہے۔ کانگریس کہتی رہی ہے کہ 2024 کی لڑائی دراصل جمہوریت بچانے کی لڑائی ہے۔ سورت کا واقعہ اس بات کی مثال ہے کہ جمہوریت کو خطرہ کون پہنچا رہا ہے۔