دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جب ظلم حد سے بڑھ جائے، تو خاموشی خود ایک احتجاج بن جاتی ہے۔ لیکن کچھ احتجاج ایسے بھی ہوتے ہیں جو خاموش نہیں، بلکہ علامتی ہوتے ہیں، علامتوں کے ذریعہ اپنے جذبات اور پیغامات دوسروں تک پہنچانے کی ایک مختلف مگر طاقتور شکل ہے۔ ایسا ہی ایک احتجاج حالیہ برسوں میں افغانستان کی خواتین کی طرف سے سامنے آیا، جسے دنیا نے ’لال لیپسٹک احتجاج‘ کے نام سے پہچانا۔
افغانستان ایک ایسا ملک ہے جہاں دہائیوں سے جنگ، سیاسی کشمکش، اور بنیاد پرستی نے عوام بالخصوص خواتین کی زندگیوں پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ طالبان کی حکومت کی واپسی (2021) کے بعد، خواتین کی آزادی پر سخت قدغنیں لگائی گئیں۔ اسکولوں، کلاسوں، دفاتر، اور عوامی مقامات سے خواتین کو نکالا گیا۔ انہیں پردے کی سخت ہدایات دی گئیں، ان کے بولنے، لکھنے، اور اپنی شناخت کے اظہار پر پابندیاں عائد ہوئیں۔ ایسے ماحول میں جب کسی بھی قسم کے جسمانی احتجاج یا مظاہرے کی اجازت نہ ہو، تو علامتی احتجاج ہی وہ واحد راستہ ہوتا ہے جس سے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی جا سکتی ہے۔
لال رنگ ہمیشہ سے جذبے، حوصلے، محبت اور بغاوت کی علامت رہا ہے۔ دنیا بھر میں خواتین اس رنگ کو اپنے احساسات کے اظہار کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں۔ افغانستان میں جب خواتین نے سوشل میڈیا پر اپنی تصاویر شیئر کرنا شروع کیں، جن میں ان کے ہونٹ لال لیپسٹک سے رنگے ہوئے تھے، تو یہ ایک طاقتور پیغام تھا۔
یہ احتجاج صرف میک اپ کا استعمال نہیں تھا بلکہ ایک ظالمانہ نظام کے خلاف ایک خاموش مگر بھرپور چیخ تھی۔ یہ لال ہونٹ اُن لبوں کی علامت تھے جنہیں بولنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ یہ احتجاج اُن چہروں کی شناخت تھی جنہیں پردے میں چھپانے پر مجبور کیا گیا۔
دنیا بھر میں اس احتجاج کو خوب پذیرائی ملی۔ بہت سی عالمی شخصیات، فیشن انڈسٹری کی خواتین اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے افغان خواتین کے اس احتجاج کو خراج تحسین پیش کیا۔ یہاں تک کہ کچھ ممالک کی پارلیمانی خواتین نے بھی لال لیپسٹک لگا کر اپنی یکجہتی کا اظہار کیا۔ جہاں ایک طرف اس احتجاج کو سراہا گیا، وہیں کچھ حلقوں سے تنقید بھی ہوئی۔ کچھ لوگوں کا ماننا تھا کہ ایسے علامتی احتجاج حقیقی تبدیلی نہیں لا سکتے اور یہ صرف سوشل میڈیا تک محدود رہ جاتے ہیں۔ تاہم، ان اعتراضات کے باوجود، یہ بات طے ہے کہ یہ احتجاج خواتین کی آواز کو دبانے کے خلاف ایک طاقتور اقدام تھا۔
افغان خواتین کا لال لیپسٹک احتجاج ایک یاد دہانی ہے کہ مزاحمت صرف ہتھیاروں سے نہیں ہوتی۔ خوبصورتی، فن، اور علامتی اظہار بھی وہ ہتھیار ہیں جو ظلم کے ایوانوں کو ہلا سکتے ہیں۔ یہ احتجاج اس بات کی علامت ہے کہ خواتین خاموش نہیں رہیں گی چاہے ان کے راستے میں کتنی ہی رکاوٹیں کیوں نہ آئیں۔
لال لیپسٹک احتجاج کو اگر تاریخی دائرے میں دیکھا جائے تو سب سے پہلے جو اس احتجاج کی تاریخ ملتی ہے وہ 1930 میں دوسری جنگِ عظیم کے دوران، خواتین جب جنگی فیکٹریوں میں کام کرنے لگیں تو وہ لال لیپسٹک لگا کر اپنی شناخت، خود اعتمادی اور نسوانیت کو برقرار رکھنے کا ایک طریقہ اپناتی تھیں۔ اس کے بعد 1960 میں فیمینسٹ خواتین نے خواتین کے روایتی نسوانی کرداروں کے خلاف آواز اٹھائی، تو کچھ خواتین نے میک اپ (بشمول لال لیپسٹک) کو ترک کر دیا لیکن بعد میں فیمینسٹ تحریک کی ایک شاخ نے کہا کہ لال لیپسٹک خودمختاری کا ذاتی اظہار بھی ہو سکتا ہے، اگر وہ عورت کی اپنی مرضی سے ہو۔سن 2000 میں لیپسٹک ایک مرتبہ پھر احتجاج کی شکل میں سامنے آئی اور یہ دلیل دی گئی کہ عورتیں خوبصورتی اور طاقت، دونوں کو ساتھ لے کر چل سکتی ہیں۔
لال لیپسٹک ایک سیاسی علامت بننے لگی۔ اس کے بعد سال 2011 میں عرب اسپرنگ یعنی عرب بہار کے دوران کچھ مظاہرین نے احتجاج کے دوران لال لیپسٹک اور میک اپ کا استعمال کیا تاکہ خواتین کی شمولیت کو اجاگر کیا جا سکے، خاص طور پر مصر میں۔ اس کے بعد سال 2013 میں ایک امریکی خاتون جیکلین فریڈمین نے ’ریڈ مائی لپس یعنی میرے ہونٹ لال‘ کی تحریک کا آغاز کیا، جب اسے ریپ کا نشانہ بنایا گیا اس کے بعد سے اپریل میں ہر سال یہ مہم چلتی ہے، جس میں لوگ لیپسٹک لگا کر جنسی تشدد کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ اس کے بعد سال 2016 سے 2020 کے دوران سوشل میڈیا پر دنیا بھر میں احتجاجی آوازیں بلند ہوئیں۔
آج لال لیپسٹک صرف ایک میک اپ کا سامان نہیں، بلکہ آزادی، خودمختاری، اور جبر کے خلاف ایک علامت بن چکی ہے۔ یہ ان لبوں کی طاقت ہے جو بولنے سے روکے گئے، مگر پھر بھی بول اٹھے، رنگوں کی زبان میں، مزاحمت کے سرخ رنگ میں۔