کوئی کہتا ہے کہ اسرائیل دنیا کی بہت بڑی فوجی طاقت ہے، کوئی کہتا ہے کہ وہ دنیا کی بڑی معیشتوں میں سے ایک ہے، یعنی الگ الگ لوگوں کی الگ الگ رائے ہے لیکن دنیا کی ایک بڑی فوجی طاقت فلسطین کے ایک چھوٹے سے گروہ ’حماس‘ کے نہ تو حملوں کی پیشگی معلومات حاصل کر سکی اور ایک سال سے زیادہ وقت گزرنے کے باوجود اس چھوٹے سے گروہ کو پست کر سکی؟ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس نے حماس کے ان حملوں کے نام پر فلسطین اور خاص کر غزہ پر اندھادھند حملے کیے لیکن اس چھوٹے سے گروہ پر قابو پانے میں ناکام ہی رہا۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد قائم اسرائیل کی عارضی حکومت کو سب سے پہلے 1948 میں امریکہ نے منظوری دی تھی اور تب سے وہ اسرائیل کی کھل کر مدد کر رہا ہے۔ غزہ پر حملے کے بعد امریکی امداد میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ اگر اگر مجموعی تصویر دیکھی جائے تو امریکہ اور اس کے ساتھیوں کی مدد کے بغیر اسرائیل کی معیشت کہیں بھی کھڑی دکھائی نہیں دیتی۔ اگر اسرائیل کی فوجی اور معاشی طاقت کو دیکھا جائے تو اس کا دارومدار امریکہ پر ہے، یعنی اگر امریکہ اور اس کے ساتھی مدد کرنا بند کر دیں تو اسرائیل ایک عام سا چھوٹا سا ملک بن جائے۔
ظاہر ہے، امریکہ اگر اسرائیل کی مدد کر رہا ہے تو اس کا بھی کوئی مفاد لازمی ہے۔ امریکہ کو اسرائیل کو طاقتور بنانے میں جو مفاد نظر آتا ہے وہ صرف اور صرف عرب ممالک کی دولت ہے۔ وہ عرب ممالک کو جتنا اسرائیل کا خوف دکھائے گا، اس کو اتنی ہی ان ممالک سے دولت ملتی رہے گی۔ امریکہ کو اسرائیل کی مدد سے دو فائدے سیدھے نظر آتے ہیں، ایک تو امریکہ میں مقامی یہودیوں کی دولت اور ان کی حمایت ملتی ہے، دوسرا یہ کہ عرب ممالک کبھی بھی امریکہ کی عیسائی حکومتوں کو آنکھیں دکھانے کے لائق نہیں ہوتے اور امریکہ کو دولت کی شکل میں مدد کرتے رہتے ہیں۔
اسرائیل، جو بنیادی طور پر عیسائیت اور اسلام کا برابر کا مخالف ہے، اسے عیسائی ممالک نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا ہے، جبکہ اسرائیل کو بھی ان کے ساتھ ہاتھ ملانے میں کامیابی نظر آ رہی ہے کیونکہ ایک تو عیسائی ممالک نے ہی اسے ملک کی شکل میں جگہ دی ہے اور وہی اس کی مدد بھی کر رہے ہیں۔
عیسائی ممالک کے پیدا کردہ خوف کی وجہ سے دونوں ہی، یعنی اسرائیل اور عرب ممالک، امریکہ اور اس کے حامیوں کی دولت میں اضافہ کرتے رہتے ہیں، چاہے وہ سامان خریدنے کی شکل میں ہو یا ہتھیار خریدنے کی صورت میں۔ اس سارے معاملہ میں اسرائیل کو ایک ایسا ملک ملا جس کی حفاظت کے لیے اسے نہ صرف اپنی عوام کو خوف کے سائے میں جینے پر مجبور کرنا پڑتا ہے بلکہ اپنی حفاظت کے لیے امریکہ اور اس کے حامیوں کی جانب دیکھنا پڑتا ہے۔ خوف بھی اس بلا کا کہ اسرائیلی عوام کو مستقل سلامتی کے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔
اب یہ معاملہ اتنا الجھ گیا ہے کہ چاہتے ہوئے بھی اسرائیل اور عرب ممالک اس خوف سے باہر نہیں آ سکتے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسرائیل پہلے عرب ممالک اور خاص طور سے اپنی مسلم دشمنی کو ترک کرے تاکہ عرب ممالک بھی اس جانب قدم اٹھانے کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوں۔ اسرائیل کی عیسائیت اور اسلام سے برابر کی مخالفت ہے لیکن پڑوسی ممالک سے بہتر تعلقات رکھنا اس کے حق میں ہے اور اس کے پڑوسی ممالک اسلام کو ماننے والے ہیں۔ اسرائیل یہ نہ سوچے کہ ترقی کے اس دور میں پڑوسی کی کوئی اہمیت نہیں ہے بلکہ پیسے اور فوجی ترقی کی زیادہ اہمیت ہے۔
اسرائیل کی اس تمام ترقی اور طاقت کا اگر ریموٹ کسی اور ملک کے پاس ہے اور اس کی عوام پورے سال خوف کے سائے میں رہتی ہے، تو اسے ایسی ترقی اور طاقت کے حصول پر دوبارہ غور کرنا چاہیے۔ اسرائیل کو اس تعلق سے ازسر نو سوچنا چاہیے کہ سکون کی زندگی کی اہمیت ہے یا اپنی طاقت اور ترقی کا ریموٹ کسی دوسرے ملک کے پاس ہونے کی۔ اسرائیل کو اپنے موقف میں اب تبدیلی کی ضرورت ہے۔