جیمس ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ کا استعمال کر کے سائنس دانوں نے ایک باہری سیارہ پر ممکنہ زندگی کے آثار تلاش کیے ہیں۔ اسے نظام شمسی سے الگ ممکنہ زندگی کا سب سے مضبوط اشارہ مانا جا رہا ہے، جس میں سائنس دانوں نے ایک بیرونی سیارہ کے کرۂ ہوا میں ان گیسوں کے کیمیائی نشانات کا پتہ لگایا ہے جو زمین پر صرف حیاتیاتی عمل کے ذریعہ پیدا ہوتی ہیں۔
سیارہ کے کرۂ ہوا میں دو گیسیں ڈائی میتھائل سلفائڈ (ڈی ایم ایس) اور ڈائی میتھائل ڈائی سلفائڈ (ڈی ایم ڈی ایس) پائی گئی ہیں جو زمین پر جانداروں کے ذریعہ پیدا ہوتی ہیں۔ اس سیارہ کا نام کے2-18بی ہے۔ یہاں جو گیس ملی ہے، زمین پر سمندری ایلگی سے پیدا ہوتی ہے۔
کیمبرج یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف ایسٹرونومی میں مطالعہ کے اہم مصنف نکّو مدھوسودن نے کہا کہ یہ سیارہ مائیکروبیل زندگی سے بھرا ہو سکتا ہے۔ حالانکہ انہوں نے زور دیا کہ یہ حقیقی زندہ جانوروں کی تلاش کا اعلان نہیں کر رہے ہیں بلکہ ایک ممکنہ بایو سگنیچر ہے۔ یہ ایک باہری دنیا کے پہلے اشارے ہیں جو ممکنہ طور رہنے کے لائق ہیں۔
کے2- 18 بی سیارہ زمین سے 8.6 گنا زیادہ بڑا ہے۔ اس کا قطر زمین کے قطر سے تقریباً 2.6 گنا بڑا ہے۔ یہ ایک لال بونے تارے کی گردش کرتا ہے جو ہمارے سورج سے چھوٹا اور کم چمکیلا ہے۔ سائنس دانوں نے ہائسین دنیا کا تصور کیا ہے۔ ایک اوقیانوس سے ڈھکے ہوئے سیارہ کی جو مائیکروبیل زندگی کے لیے رہنے کے لائق ہوتے ہیں اور جن میں ایک ہائیڈروجن- وسیع کرۂ ہوا ہوتا ہے۔
سائنس دانوں نے کہا ہے کہ زیادہ نظریاتی اور تجرباتی مطالعات کی ضرورت ہے تاکہ یہ یقینی کیا جا سکے کہ کیا کوئی دیگر ابیوٹک نظام ہے جو ڈی ایم ایس یا ڈی ایم ڈی ایس کو ایک سیارہ کے کرۂ ہوا میں بنا سکتا ہے۔
سائنس داں مدھوسودن نے کہا کہ یہ نظام شمسی سے الگ زندگی کی تلاش میں ایک اہم موڑ ہے جہاں ہم نے دکھایا ہے کہ ہم موجودہ آلات کے ساتھ رہنے کے قابل سیاروں میں زندگی کے اشارے ڈھونڈ سکتے ہیں۔ ہم نے اب فلکیات کے آبزرویشن عہد میں داخلہ کیا ہے۔ مدھوسودن نے یہ بھی کہا کہ ہمارے نظام شمسی میں زندگی کی تلاش کے لیے کئی کوششیں جاری ہیں۔