آج کے ڈیجیٹل دور میں جہاں زندگی کی کئی آسانیاں محض ایک کلک کی دوری پر ہیں، وہیں خطرات بھی پہلے سے کہیں زیادہ قریب آ چکے ہیں۔ آن لائن فراڈ، سائبر کرائم، اور ڈیجیٹل چوری جیسے جرائم روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ایسے فراڈ کا شکار بننے والے زیادہ تر افراد کوئی نادان یا جاہل نہیں ہوتے بلکہ پڑھے لکھے، باشعور اور باخبر لوگ بھی اس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اصل مسئلہ علم کی کمی کا نہیں بلکہ لالچ کا ہے۔
لالچ وہ انسانی کمزوری ہے جسے اکثر دھوکہ دینے والے بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ ’آپ نے لاکھوں کا انعام جیتا ہے‘، ’بس 500 روپے بھیجیں اور 50 ہزار پائیں‘، ’آخری موقع! فوراً رجسٹر کریں ورنہ دیر ہو جائے گی‘، یہ وہ پیغامات ہیں جو بظاہر بے ضرر لگتے ہیں لیکن درحقیقت ہزاروں لوگوں کی جمع پونجی لوٹنے کے منصوبے ہوتے ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ لوگ ان پیغامات پر اندھا اعتماد کر لیتے ہیں کیونکہ وہ آسان دولت کمانے کے لالچ میں آ جاتے ہیں۔
یہ وہ مقام ہے جہاں ایمانداری، دیانتداری، اور اصول پسندی جیسے اعلیٰ اوصاف کی اہمیت ابھرتی ہے۔ اگرچہ ان اقدار کو اکثر صرف ’کتابی باتیں‘ کہہ کر نظرانداز کر دیا جاتا ہے، مگر یہی اوصاف انسان کو ایسے فراڈ سے بچا سکتے ہیں۔ ایماندار انسان نہ صرف خود لالچ سے بچتا ہے، بلکہ ہر پیشکش کو شک کی نظر سے دیکھنے کا شعور بھی رکھتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ بغیر محنت کے ملنے والا انعام اکثر دھوکہ ہوتا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ ہم میں سے کتنے لوگ اپنے بچوں کو شروع سے ایمانداری کا سبق دیتے ہیں؟ سچ یہ ہے کہ ہم نے نئی نسل کو صرف کامیابی، مقابلہ بازی اور دولت کے پیچھے دوڑنے کی ترغیب دی ہے۔ ہم نے ان کے سامنے ایمانداری اور دیانت کو قابلِ فخر بنا کر پیش کرنے کے بجائے ’سمارٹ بنو‘، ’چالاکی سے کام لو‘ اور ’شارٹ کٹ تلاش کرو‘ جیسے مشورے دیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ بڑے ہوتے ہیں، تو ان کے لیے اصول اور ضمیر صرف رکاوٹ بن جاتے ہیں اور ہر چمکتی چیز انہیں موقع لگتی ہے۔
اگر ہم واقعی چاہتے ہیں کہ ہماری آئندہ نسلیں آن لائن فراڈ سے محفوظ رہیں، تو ہمیں اپنے گھروں میں ایک اخلاقی انقلاب برپا کرنا ہوگا۔ ہمیں بچوں کو بچپن سے سکھانا ہوگا کہ ایمانداری صرف اچھا اخلاق نہیں بلکہ ایک حفاظتی ڈھال ہے۔ انہیں یہ سمجھانا ہوگا کہ آسان پیسے کا خواب اکثر کڑوا دھوکہ ہوتا ہے اور جو راستہ محنت اور صبر کا ہے، وہی آخرکار منزل تک لے جاتا ہے۔
ایمانداری کے فروغ کے لیے والدین کا کردار سب سے اہم ہے۔ بچے جو کچھ دیکھتے ہیں، وہی سیکھتے ہیں۔ اگر والدین خود دیانتدار ہوں، جھوٹ سے گریز کریں، معمولی فائدے کے لیے اصول نہ توڑیں، تو بچے بھی وہی راہ اپناتے ہیں۔ اسی طرح اسکولوں میں صرف نصابی تعلیم نہیں بلکہ کردار سازی کا عمل بھی لازم ہونا چاہیے۔ دیانتداری، اعتماد، اور ذمہ داری جیسے موضوعات کو باقاعدہ طور پر نصاب میں شامل کرنا چاہیے۔
میڈیا اور سوشل میڈیا بھی اس معاملے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ جہاں کامیاب مگر بے اصول کرداروں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے، وہیں ایماندار، محنتی اور سادہ لوگوں کو بھی مثبت انداز میں پیش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نوجوانوں کو یہ پیغام ملے کہ کامیابی صرف دولت نہیں، عزت اور اعتماد کا نام بھی ہے۔
آن لائن فراڈ صرف تکنیکی مسئلہ نہیں، یہ درحقیقت ایک اخلاقی چیلنج بھی ہے۔ جب تک ہم اپنی اخلاقی بنیادوں کو مضبوط نہیں کرتے، کوئی بھی سکیورٹی ایپ یا ڈیجیٹل حفاظتی نظام مکمل تحفظ نہیں دے سکتا۔ لالچ ہمیشہ راستہ ڈھونڈ لیتا ہے اور جب تک دل میں صبر اور قناعت نہ ہو، عقل اور ہوشیاری بھی ناکافی ثابت ہوتی ہے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری رقم، محنت اور وقار محفوظ رہے، تو ہمیں نہ صرف خود دیانتدار بننا ہوگا بلکہ اپنے بچوں کو بھی یہ ورثہ منتقل کرنا ہوگا۔ ایمانداری ایک ڈھال ہے، لالچ ایک زنجیر۔ ہمیں انتخاب کرنا ہے کہ ہم اپنے بچوں کے ہاتھ میں کیا دیں گے، ڈھال یا زنجیر؟