چنڈی گڑھ: سکھبیر سنگھ بادل کو شرومنی اکالی دل کا صدر دوبارہ منتخب کر لیا گیا ہے۔ یہ انتخاب امرتسر میں گولڈن ٹیمپل کمپلیکس کے اندر واقع تیجا سنگھ سمندری ہال میں ہفتہ کے روز منعقد پارٹی کے تنظیمی انتخابات کے دوران متفقہ طور پر عمل میں آیا۔ قائم مقام صدر بلوندر سنگھ بھونڈر نے ان کے نام کی تجویز دی, جسے پارٹی کے 524 نمائندوں نے اتفاق رائے سے قبول کیا۔
سکھبیر سنگھ بادل نے پہلی مرتبہ 2008 میں اپنے والد پرکاش سنگھ بادل کے بعد صدر کا عہدہ سنبھالا تھا اور 2024 تک پارٹی کی قیادت کرتے رہے۔ تاہم، گزشتہ سال مذہبی سزا کے باعث انہوں نے 16 نومبر 2024 کو استعفیٰ دے دیا تھا، جب اکال تخت نے انہیں تنکھا یعنی قصوروار قرار دیا تھا۔
اکال تخت کے جتھیدار گیانی رگھبیر سنگھ کی جانب سے 2 دسمبر 2024 کو جاری ہدایت میں کہا گیا تھا کہ سکھبیر بادل اور اس وقت کی قیادت شرومنی اکالی دل کی سربراہی کے لیے نااہل ہیں۔ اس کے بعد شرومنی گردوارہ پربندھک کمیٹی نے جتھیدار کو برطرف کر کے ان کی جگہ جتھیدار کلدیپ سنگھ گرگج کو مقرر کیا۔
مذہبی سزا کے دوران گولڈن ٹیمپل میں موجود سکھبیر سنگھ بادل پر ایک قاتلانہ حملے کی کوشش بھی ہوئی، تاہم وہ محفوظ رہے۔ اکالی دل کے ترجمان دلجیت سنگھ چیما کے مطابق سکھبیر اور دیگر قائدین نے اکال تخت کے احکامات کے تحت اپنی سزا پوری کر لی ہے، جس کے بعد وہ مذہبی طور پر پاک ہو گئے ہیں۔
پارٹی کے ایک سینئر رہنما نے کہا کہ سکھبیر بادل نے مشکل وقت میں بھی قیادت کا مظاہرہ کیا اور ان پر تنقید کرنے والے خود غرضی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ایک اور رہنما نے کہا کہ سکھبیر نے پنتھ کے سامنے پیش ہو کر اپنی مذہبی ذمہ داری پوری کی اور اب وہ پارٹی کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے تیار ہیں۔
خیال رہے کہ شرومنی اکالی دل 2007 سے 2017 تک پنجاب میں اقتدار میں رہی، تاہم 2017 کے بعد سے پارٹی کو مسلسل انتخابی ناکامیوں کا سامنا ہے۔ 2022 کے اسمبلی انتخابات میں پارٹی صرف 3 نشستیں جیت سکی اور 2024 کی لوک سبھا میں محض ایک سیٹ پر کامیابی ملی۔
تنظیمی انتخابات کے ذریعے سکھبیر بادل کی واپسی کو پنجاب کی سیاست میں ایک نئے باب کے آغاز کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، خاص طور پر اکال پنتھ کے دائرے میں۔ اس دوران کھڈور صاحب سے رکنِ پارلیمان اور خالصتان حامی امرت پال سنگھ جیسے شدت پسند ایک نیا اکالی دل بنانے کا اعلان کر چکے ہیں، جبکہ اکالی دل اصلاح کمیٹی بنانے والے باغیوں کا سیاسی مستقبل غیر یقینی کا شکار ہے۔