دنیا کی نظریں اس وقت امریکی صدر کی نئی ٹیرف پالیسی پر لگی ہوئی ہیں، مسلم دنیا کی نظریں قطر کے حماس اور نیتن یاہو سے رشتے پر گڑی ہوئی ہیں، ہندوستانی مسلمانوں کی نظریں وقف ترمیمی بل کے مستقبل کو لے کر بے چینی سے انتظار کر رہی ہیں اور ہندوستانی عوام کی نظریں راہل گاندھی کی بہار یاترا اور احمد آباد اجلاس پر ٹکی ہوئی ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں یہ موضوعات انتہائی اہم ہیں اور ان کے اثرات دنیا کے کسی نہ کسی کونے پر نظر آئیں گے لیکن اگر ہم مستقبل کی بات کریں تو جس تیزی کے ساتھ دنیا میں سائنسی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اس نے آنکھیں ہوتے ہوئے بھی عام لوگوں کو اندھا کر دیا ہے۔
مصنوعی ذہانت نے پہلے ہی ایک بڑی تعداد کو بے روزگار کرنا شروع کر دیا ہے اور جس بڑی تعداد میں انسانی روبوٹس دنیا میں آ رہے ہیں اس نے سب کو حیرانی میں ڈال دیا ہے۔ جس تیزی کے ساتھ سائنس میں تبدیلیاں ہو رہی ہیں اس سے اب طے کرنا بھی مشکل ہو رہا ہے کہ آگے کس راستے پر چلنا ہے، بہت ہی کنفیوژن ہے۔
یہ کنفیوژن اس لئے ہے کہ مصنوعی ذہانت کے سفر کا آغاز ہے اور انسانی روبوٹس کس کس شعبہ میں اپنی دخل اندازی کرے گا اس کا کسی کو علم نہیں ہے۔ انسانی روبوٹس گھر کے کام سے لے کر بڑی بڑی فیکٹریوں میں کام کرتے نظر آ رہے ہیں اور ظاہر ہے اس کا فائدہ ان سب لوگوں کو ہو رہا ہے جو انسانی مجبوریوں اور انسانی فطرت سے دور رہنا چاہتے ہوں۔ چاہے گھر میں کسی بائی کی جگہ انسانی روبوٹ کام کرے۔ اگر کام بائی سے زیادہ بہتر طریقے سے روبوٹ کرتا ہے اور اس کے ساتھ کوئی مجبوری اور انسانی فطرت یعنی بیماری اور چوری وغیرہ نہیں جڑی ہوئی ہیں اور وہ بچوں پر نظر بھی نہیں رکھتا ہے اور ان کی شکایت اور تعریف بھی ابھی نہیں کرتا ہے تو یہ اس مالک کے لئے آسانی ہی ہوگی جو آئے دن بائی کے مسئلہ سے پریشان رہتے ہیں، بیماری اور چوری جیسے مسائل سے دوچار ہوتے ہیں۔ اس کے لئے بس ایک یس مین یعنی ’جی حضور‘ والا روبوٹ چاہئے جو اس کے سب مسائل کا حل ہو، بس اسے اس کے لئے ایک چارجر اور خریدنے کے لئے پیسے درکار ہوں۔
اسی طرح بڑی بڑی فیکٹریوں کا حال ہوگا جہاں کے مالکان آئے دن کے احتجاج اور ملازمین کی چھٹیوں سے پریشان ہیں وہاں اگر انسانی روبوٹس مشینی انداز میں ایک جیسا سامان تیار کرتے ہیں اور وہ بھی بغیر چوں چرا کئے۔ ان کے ذریعہ تیار کردہ مال کی تعداد معلوم ہوگی، تنخواہ کا کوئی جھنجھٹ نہیں صرف اس بات کو یقینی بنانا پڑے گا بجلی آتی رہے اور وہ چارج ہوتے رہیں یعنی صرف ایک بار کا خرچ جیسے مشین لانے پر ہوتا ہے ویسے ہی یہ مشینی روبوٹس یعنی انسانی روبوٹس پر ایک مرتبہ کا خرچ۔ یعنی لوگوں کا استعمال بہت تیزی سے گھٹ جائے گا۔
انسانی روبوٹس تقریباً ہر شعبہ میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش میں ہے چاہے وہ کھانا پکانے سے لے کر کار اور بڑے بڑے پل بنانے کا مسئلہ ہو۔ یعنی ذائقے بھی ایک جیسے اور بڑی بڑی چیزیں بھی ایک جیسی۔ اس سے پہلے کہ انسان خود ایک دن مشین جیسا بن جائے اور اس میں جذبات نام کی کوئی چیز نہ رہے، اس کا یہ سفر بہت تکلیف دہ ہوگا کیونکہ ایک طرف بڑھتی بے روزگاری اور دوسری طرف تناؤ سے راحت کے ساتھ اپنی مرضی کا تیار کردہ مال اور اس سب میں اس کے ختم ہوتے ہوئے جذبات۔ یہ سب اس کی زندگی کا حصہ لاشعوری طور پر بن جائے گا۔
دوسری جانب مصنوعی ذہانت بہت تیزی کے ساتھ انسانی دماغ پر اپنا قبضہ جمانے کے لئے بے چین نظر آ رہی ہے۔ اس کی کوشش یہ ہے کہ انسان کی ہر ضرورت کو وہ پورا کر دے اور اس کو وہ اپنا غلام بنا لے۔ اپنی اس کوشش میں مصنوعی ذہانت جس بری طرح اپنا ڈیٹا بینک بڑھا رہی ہے اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کے پاس انسانی ضرورت کے تمام حل موجود ہوں گے اور دھیرے دھیرے انسانی دماغ پر اس کا قبضہ اس طرح ہو جائے گا جیسے انسان پہلے فون نمبر یاد رکھتا تھا اور موبائل کے آنے کے بعد اسے انہیں یاد رکھنے کی ضرورت ہی نہیں رہی۔
اس ترقی کا ثمر کون استعمال کرے گا یہ دیکھنا ہوگا اور کون لوگ ہوں گے جو اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ ظاہر ہے ان سب چیزوں کے استعمال کے لئے انسانوں کی ضرورت ہمیشہ رہے گی۔ اب یہ دیکھنا ہوگا کہ آبادی کی زیادتی اس ترقی میں لعنت یا نعمت ثابت ہوگی، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن یہ تبدیلی ٹائپ رائٹر سے کمپیوٹر میں تبدیلی یا فون میں بینک اور کیمرے والی تبدیلی سے بڑی ہوگی اور اس میں آبادی کے کردار کو دیکھنا لازمی ہوگا۔ یہ ترقی مغرب کے لئے سودمند رہے گی یا بڑی آبادی والے مشرق کے لئے فائدہ مند رہے گی لیکن اس میں کوئی دو رائے نہیں یہ مادیات کے لئے سودمند رہے گی اور جذبات کے لئے نقصاندہ ثابت ہوگی۔