جامع مسجد کے اطراف بسی پرانی دہلی کی آبادی کو طویل عرصے سے مسلمانوں کا گڑھ تصور کیا جاتا رہا ہے۔ وقت کے ساتھ آبادی میں اضافہ ہوا اور کچھ لوگوں نے تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے بچوں کی بہتر تعلیم کے لیے پرانی دہلی چھوڑ دی۔ بعض لوگ معاشی طور پر مستحکم ہوئے تو گاڑیوں کی سہولت اور بچوں کی تعلیمی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے جنوبی دہلی، خاص طور پر مسلم اکثریتی علاقے اوکھلا کو اپنا مسکن بنایا۔ آبادی میں اضافے اور معاشی تفاوت کے باعث مکانات کی تقسیم بھی بدل گئی۔ ہنر مند اور متوسط طبقے کے افراد نے جمنا پار کے علاقوں، جیسے سیلم پور وغیرہ میں رہائش اختیار کر لی۔ دہلی میں مسلم آبادی میں جو بھی اضافہ ہوا، وہ لوگوں کی معاشی حالت اور ترجیحات کے مطابق مختلف علاقوں میں بٹتا رہا۔

ویسے تو رمضان ہر سال ہی آتے ہیں اور مسلمان بھی اپنی سکت کے حساب سے مذہبی فرائض ادا کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود مسلم علاقوں میں وقت کے ساتھ ساتھ کچھ تبدیلیاں آتی گئیں۔ جب پرانی دہلی کا دورہ کیا تو وہاں پر زبردست بھیڑ نظر آئی اور سوال دماغ میں گھومنے لگا کہ لوگ اتنی کمائی کرتے کیوں ہیں؟ اس ماہ میں اکثر لوگوں کی کمائی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ دراصل اس ماہ میں مسلمانوں پر مذہبی جذبات حاوی ہو جاتے ہیں، اور اس ماہ میں فطرہ، نئے کپڑے اور بہت حد تک زکوٰۃ کی ادائیگی بھی ذہن میں رہتی ہے۔ اس لئے وہ ان ضروریات کو پورا کرنے کے لئے خوب کماتے ہیں۔

پرانی دہلی میں جامع مسجد کے علاقہ میں جیسے ہی داخل ہوتے ہیں اور وہاں کی دوکانوں میں جو بھیڑ نظر آتی ہے، اس سے ایسا پیغام جاتا ہے کہ دہلی کے لوگ صرف خریداری کرتے نظر آ رہے ہیں۔ آخری عشرہ میں جہاں لوگ تراویح میں قرآن سننے کے بعد عام طور پر فارغ ہو جاتے ہیں، وہ اپنے اہل خانہ کے لئے جوتے اور کپڑے لینے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ یعنی اس عشرہ میں کپڑے اور جوتے کی دوکانوں میں خوب بھیڑ نظر آتی ہے۔ پرانی دہلی میں مشروبات، کھانے کی اشیا وغیرہ خوب بکتی نظر آتی ہیں، جبکہ کھجلا، پھینی اور کھجوروں کی دوکانوں میں اب زیادہ بھیڑ نظر نہیں آتی۔

جامع مسجد سے جیسے جیسے چتلی قبر کی جانب جاتے ہیں تو سڑک کے دونوں اعتراف کھانے کی مختلف اشیاء کی دوکانیں دکھائی پڑتی ہیں اور خاص طور سے ترکی کی مشروبات خوب بکتی نظر آتی ہیں۔ جامع مسجد کے اندر بھی افطار کرنے کا رجحان دن بدن بڑھتا جا رہا ہے اور وہاں کے افطار کے تعلق سے دو باتوں کی خوب چرچا ہوئی جس میں ایک تو روزہ کھولنے والوں کے ذریعہ وہاں کی عدم صفائی ہے، اور دوسری بات بھارتی نامی ایک غیر مسلم لڑکی کی جانب سے دی جانے والی افطار کی دعوت۔
پرانی دہلی میں جامع مسجد کی جانب سے جیسے ہی دیگر علاقوں میں جاتے ہیں، وہاں پر بھی ان خاص مارکیٹوں میں زبردست بھیڑ نظر آ جاتی ہے۔ بلیماران کے علاقہ میں جوتے، چپل، چشمے اور گھروں میں بچھانے والی ریکسین خوب بکتی نظر آتی ہے۔ چتلی قبر کی طرح چاندنی چوک اور کٹروں میں کپڑے بکتے نظر آتے ہیں۔

بہر حال، یہاں پر اتنی بھیڑ تو نہیں ہے جتنی اوکھلا وغیرہ میں ہے، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لوگ یہاں پر بھی دوسرے دوکانداروں کے لئے کماتے نظر آتے ہیں۔ میں یہ سوچ کر پریشان ہوں کہ لوگ ماہ رمضان کے بعد کیا کریں گے، کیونکہ جس بڑی تعداد میں اس ماہ میں لوگ کمانے کے جنون میں نئے نئے کام کرتے ہیں، وہ اب کیا کریں گے جب ان کو اتنی بڑی تعداد میں خریدار نہیں ملیں گے۔ کاش پورے سال ہی رمضان کی رونقیں رہیں تاکہ لوگوں کی بڑے پیمانے پر بے روزگاری دور ہو جائے۔