ماہ رمضان میں جہاں مساجد کی رونق میں اضافہ ہو جاتا ہے، یعنی نمازیوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے، وہیں بازاروں میں بھی زبردست چہل پہل دیکھنے کو ملتی ہے۔ اگر دہلی کا ذکر کیا جائے تو اوکھلا کا علاقہ بازار، کھانے پینے کی اشیاء اور مساجد کے معاملے میں پوری ایک دہلی بن گئی ہے، اور یہاں کی آبادی میں طلباء، کاروباری، نوکری پیشہ اور ماڈرن خواتین اہم کردار بن کر ابھرے ہیں۔ یہاں پر کسی ایک طبقہ کی جاگیرداری نہیں ہے۔


اوکھلا کے مسلم اکثریتی علاقے، چاہے وہ ذاکر نگر ہو یا شاہین باغ ہو، وہ کھانے پینے کی اشیاء میں کسی بھی علاقہ سے پیچھے نہیں ہیں۔ یہاں بہترین قسم کے کپڑے بھی دستیاب ہیں۔ اس علاقہ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور تعلیم یافتہ لوگوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے اس علاقہ میں سیریا یعنی ملک شام کے نام پر اپنی ضرورتیں پوری کروانے والے نوجوان، خواتین اور بچوں کو ہاتھوں میں کتبہ لئے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس ماہ میں مسلمانوں میں دینے کے رجحان میں اضافہ کی وجہ سے مقامی مانگنے والوں کی تعداد میں بھی خوب اضافہ دیکھا جا سکتا ہے۔
گلی نمبر 18 کی مسجد میں نمازیوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے اور دیگر مساجد کی طرح اس مسجد میں بھی دیوار پر تقریباً ایک میٹر کے فاصلے پر 3 یا 4 تسبیح لٹکی نظر آتی ہیں۔ نماز کے بعد نمازیوں کی ایک بڑی تعداد مسجد میں رک کر قرآن کی تلاوت کرنے میں مصروف نظر آ تے ہیں۔ تھوڑے فاصلے پر اے ٹی ایم میں برقعہ پوش خواتین پیسے نکالتی بھی دکھائی دے جاتی ہیں۔ مسلم طبقہ میں خواتین کے کردار پر جو سوال اٹھاتے ہیں، ان کو یہ ضرور دیکھنا چاہیے۔
ڈھلان کی طرف سے ذاکر نگر میں داخلے پر جہاں پھل والے اور کھجور والے استقبال کرتے نظر آتے ہیں، وہیں زم زم کی عطر کی دوکان اور کپڑے کی دوکان سے باقائدہ استقبال ہوتا ہے۔ شروع میں مختلف کھانے کی اشیا کی دوکانیں جس میں بیکری، شیرمال، پکوڑی والے، مختلف اقسام کے مشروبات اور کپڑوں کی دوکانیں شامل ہیں، یہاں خریداروں کی بھیڑ نظر آتی ہے۔
ذاکر نگر میں موڑ کے بعد تو بس کپڑے والے، خواتین اور بچوں کا سامان فروخت کرنے والے اور خاص طور سے گھروں کو سجانے سنوارنے والے سامان کی دوکانوں پرزبردست بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ بھیڑ کی وجہ سے ای رکشا اور کاروں کو اندر نہیں آنے دیا جا رہا۔ وہاں سے شاہین باغ کی جانب یہ دیکھنے کے لئے سفر کیا کہ وہاں پر رمضان کی رونقوں کو بھی دیکھا جائے۔ اپنی الگ پہچان بنانے والے اور زیادہ امیر افراد اوکھلا کے قریب لاجپت نگر مارکیٹ سے خریداری کرتے ہیں۔

شاہین باغ پہنچنے کے بعد کووڈ سے پہلے سی اے اے-این آ ر سی کے خلاف مظاہروں کا دور یاد آ گیا۔ سڑک پر مرمتی کام ہونے کی وجہ سے صرف پیدل ہی وہاں پر چل سکتے ہیں۔ لیکن سڑک کے دونوں طرف شروع میں مختلف کھانوں کی دوکانیں، جس میں قریشی کباب اور جاوید نہاری والوں کی دوکانوں پر خوب بھیڑ دکھائی دیتی ہے، لیکن ساتھ میں لوگ سڑک پر بھی مختلف طرح کے کھانے کھاتے نظر آتے ہیں۔ ان میں ترکی اور افغانستان کی ڈشز بہت مقبول نظر آتی ہیں۔ لوگ، جس میں ایک تعداد غیر مسلم خواتین اور مرد حضرات کی بھی تھی، وہ افغان سموسہ کے ذائقے کے مزے لیتے نظر آئے۔ کھانے کے بعد مختلف اقسام کی چائے، جو یہاں کی پہچان بن گئی ہیں، ان کی دوکانوں پر زبردست بھیڑ نظر آتی ہے۔
بہرحال، ماہ رمضان میں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے مسلمانوں میں خرچ کرنے کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھر جاتا ہے۔ اس جذبہ کی وجہ سے مسلمانوں میں موجود زبردست بے روزگاری کافی حد تک دور ہو جاتی ہے۔ ایسا اس لیے کیونکہ نوجوان جو عام دنوں میں کچھ نہیں کرتے، اس ماہ میں وہ کہیں ٹھیلا لگا رہے ہوتے ہیں، یا کسی دوکان پر کام کر رہے ہوتے ہیں۔ مانگنے والوں کی بھی چاندی ہو جاتی ہے اور وہ بھی بڑی تعداد میں مسلم علاقوں میں نظر آتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ رمضان المبارک ایسا مہینہ ہے جس میں مسلمان عبادت بھی دل سے کرتے دکھائی دیتے ہیں اور خوب خرچ کرتے بھی نظر آتے ہیں۔