حیدرآباد: تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ اے ریونت ریڈی کو 22 مارچ کو دہلی میں ایک اہم اجلاس میں شرکت کی دعوت دی ہے، جس میں لوک سبھا حلقوں کی حد بندی کے جنوبی ریاستوں پر اثرات پر غور کیا جائے گا۔ تمل ناڈو کے وزیر کے این نہرو نے دہلی کے دورہ کے دوران وزیر اعلیٰ اسٹالن کی جانب سے یہ دعوت نامہ پیش کیا۔
سرکاری بیان کے مطابق، اس اجلاس میں جنوبی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ اور سابق وزرائے اعلیٰ کو ایک ساتھ لانے کا مقصد یہ ہے کہ وہ اس عمل کے نتیجے میں ممکنہ نقصانات اور خدشات پر تبادلہ خیال کریں۔ اجلاس میں سیاسی نمائندگی اور وسائل کی تقسیم سے متعلق امور پر بھی گفتگو کی جائے گی، جو مجوزہ حد بندی کے بعد پیدا ہو سکتے ہیں۔
ہندوستان میں لوک سبھا اور اسمبلی حلقوں کی حد بندی کا عمل وقتاً فوقتاً کیا جاتا ہے تاکہ آبادی میں اضافے اور دیگر عوامل کی بنیاد پر نشستوں کی ازسرنو تقسیم کی جا سکے۔ یہ عمل حد بندی کمیشن کے ذریعے انجام دیا جاتا ہے، جو پارلیمنٹ کے قانون کے مطابق کام کرتا ہے۔ آئین کی دفعہ 82 کے تحت، ہر مردم شماری کے بعد حد بندی کی جا سکتی ہے، تاہم 1976 میں 42ویں آئینی ترمیم کے تحت 2001 تک اس پر روک لگا دی گئی تھی، جسے بعد میں 2026 تک بڑھا دیا گیا۔
جنوبی ہندوستان کی کئی ریاستیں، بشمول تمل ناڈو، تلنگانہ، کیرالہ اور کرناٹک حد بندی کے عمل پر خدشات کا اظہار کر رہی ہیں۔ ان ریاستوں کا مؤقف ہے کہ انہوں نے آبادی کنٹرول کرنے کی پالیسیاں اپنائی ہیں، جبکہ شمالی ریاستوں کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اگر آبادی کی بنیاد پر نئی نشستیں مختص کی گئیں، تو جنوبی ریاستوں کی پارلیمانی طاقت میں کمی آ سکتی ہے جبکہ شمالی ریاستوں کو زیادہ نمائندگی مل سکتی ہے۔
تمل ناڈو، تلنگانہ، کیرالہ اور دیگر جنوبی ریاستوں کا کہنا ہے کہ نئی حد بندی کے بعد ان کی سیاسی نمائندگی متاثر ہو سکتی ہے۔ یہ ریاستیں پہلے ہی ٹیکس کے وسائل کی غیر مساوی تقسیم پر اعتراض کر چکی ہیں اور اگر پارلیمانی نشستوں میں کمی کی گئی، تو یہ ایک اور بڑا مسئلہ بن سکتا ہے۔
اس صورتحال میں، اسٹالن کی قیادت میں ہونے والا اجلاس جنوبی ریاستوں کی مشترکہ حکمت عملی طے کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ سیاسی ماہرین کے مطابق، یہ اجلاس مستقبل کی حد بندی پالیسیوں پر اثر انداز ہو سکتا ہے اور جنوبی ریاستوں کی اجتماعی آواز کو مضبوط کر سکتا ہے۔ اجلاس میں دیگر ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ اور اہم رہنماؤں کی شرکت بھی متوقع ہے۔