پوری دنیا میں تبدیلی کی ہوا چل رہی ہے، زیادہ تر ممالک میں لوگ دائیں بازو کی حکومتوں کا انتخاب کر رہے ہیں۔ دائیں بازو کی حکومتوں اور ان کے حلیف سرمائے داروں کا غلبہ بڑھتا جا رہا ہے۔ اس نئے نظام کے تحت امیر اور امیر ہوتا جا رہا ہے جبکہ دنیا کا متوسط اور غریب طبقہ غربت کی نئی کھائیوں میں گرتا جا رہا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں عوام کو زندگی کی روز نئی سہولیات میسر ہو رہی ہیں، جس کا فائدہ بھی گھوم پھر کر سرمائے داروں کو ہی ہو رہا ہے کیونکہ جدید سہولیات فراہم کرنے کے نام پر غریب کی جیب پر ہی ڈاکا ڈالا جا رہا ہے۔ یعنی سرمائے داروں کے جدید آلات کو خریدنے والا بھی چاہئے۔
ترقی اور جدت کے نام پر جس نظام کی رسی عوام کو پکڑنے میں مزہ آ رہا ہے، وہ درحقیقت ان کے گلے اور جیب کا پھندا بنتی جا رہی ہے۔ عوام اسی رسی کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں کیونکہ انہیں سہولت پسندی کا عادی بنایا جا رہا ہے۔ ترقی اور آسانی ہر کسی کی خواہش و ضرورت ہوتی ہے لیکن جب یہ آسانی دماغ پر چڑھ جائے اور اس سے وہ اپنے حق میں فیصلے کرنے کے بجائے اپنے خلاف فیصلے کرنے لگے تو اس کے نتائج خوفناک ہو جاتے ہیں۔
ترقی کرنا اور آگے بڑھنا انسانی فطرت بھی ہے اور ضرورت بھی لیکن ترقی کرنے کے نام پر خود کو گروی رکھنے کے بجائے ترقی کو اپنا غلام بنانے کی ضرورت ہے لیکن جو ترقی کے ثمر عوام تک پہنچا رہے ہیں وہ عوام کو اپنا غلام بنائے رکھنا چاہتے ہیں جس کے لئے وہ اپنی مرضی کی حکومتیں چاہتے ہیں۔ سرمائے دار اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنے کے لئے اپنے ترقی کے آلات اور سرمائے کا خوب استعمال کرتے ہیں۔ سرمائے دار کوئی بھی اقدام اپنے سرمائے کو بڑھانے کے علاوہ نہیں لیتا جس کی تازہ مثال دنیا کا سب سے طاقتور ملک امریکہ ہے۔
امریکی صدارتی انتخابات میں ویسے تو ریپبلکن امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ خود سرمائے دار رہے ہیں اور سوالوں کے گھیرے میں بھی رہے ہیں لیکن جس طرح ایکس کے مالک ایلون مسک نے ٹرمپ کی انتخابی مہم میں ہر طرح سے مدد کی اور جس کی وجہ سے ٹرمپ کی جیت کے بعد مسک کی طاقت میں بے تہاشہ اضافہ ہوا، وہ قابل ذکر ہے۔ مسک کی بڑھتی طاقت کا اندازہ تو ہو ہی رہا تھا لیکن جس طرح مسک اپنے بیٹے کو لے کر امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے اہم اجلاس میں پہنچے یا جس طرح ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی اپنے امریکی دورے کے دوران مسک کی اہلیہ اور بچوں کو اہمیت دیتے ہوئے نظر آئے اس سے ان کے قد اور طاقت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے اس قد کو دکھانے کا مقصد ان کو اپنے سرمائے میں اضافہ کرنا ہے۔ جس کو انہوں نے ظاہر بھی کر دیا کہ وہ اپنی الیکٹڑک کار ہندوستان میں بیچنے جا رہے ہیں اور ظاہر ہے اپنی شرطوں پر ہی بیچیں گے۔
جو کچھ امریکہ میں ہو رہا ہے، کچھ ویسا ہی ہندوستان میں بھی ہو رہا ہے جہاں حکومت عوام کا کم اور کارپوریٹ گھرانے یعنی سرمائے داروں کا زیادہ خیال رکھتی نظر آ رہی ہے۔ حکومت کے اس اقدام کے بدلے میں سرمائے دار بھی حکومتوں کے حق میں کھڑے نظر آ رہے ہیں، جس کی وجہ سے امیر اور امیر و غریب مزید غریب ہوتا جا رہا ہے، جس کا سیدھا مطلب ہے کے غریبوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور امیروں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے لیکن جو چند امیر ہیں ان کی دولت میں بے انتہا اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔
موجودہ رجحان جس میں حکومتوں پر دائیں بازو کا قبضہ بڑھ رہا ہے جس کے نتیجے میں ممالک میں سرمائے دارانہ نظام میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہ رجحان ممالک کے عوام کے لئے نقصاندہ ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ رجحان کب تک جاری رہتا ہے کیونکہ غریبی عوام کو مشتعل کر دیتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتیں ترقی کو اپنا مالک نہیں بلکہ اپنا غلام بنائیں اور اسے اپنے اوپر قطعی طور پر مسلط نہ ہونے دیں۔