ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی اس وقت امریکہ کے 2 روزہ دورے پر ہیں۔ وہ ٹرمپ حکومت میں شامل اہم وزراء اور افسران سے ملاقات کر رہے ہیں۔ 14 فروری کو ان کی ملاقات امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے بھی مقرر ہے اور امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ پی ایم مودی اہم معاملات کو سامنے رکھیں گے۔ اس سے قبل کانگریس جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے پی ایم مودی کے سامنے کچھ تلخ سوالات رکھے ہیں۔
یہ سوالات انھوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر کیے گئے اپنے پوسٹ میں شامل کیا ہے۔ پوسٹ میں انھوں نے پی ایم مودی پر طنز کے تیر بھی چلائے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’ہندوستان کے وزیر اعظم 14 فروری کو اپنے ’عزیز دوست‘، امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے پہلے گلے ملیں گے پھر ملاقات کریں گے۔‘‘ وہ اس پوسٹ میں مزید لکھتے ہیں کہ ’’ہندوستان پہلے ہی امریکی صدر کو خوش کرنے کے لیے کچھ زرعی مصنوعات اور ڈونالڈ ٹرمپ کی پسندیدہ ہارلے-ڈیوڈسن موٹر سائیکلوں پر درآمدات ٹیکس ختم کر چکا ہے۔ ساتھ ہی ہندوستان کی طرف سے شہری جوہری نقصان (سویلین نیوکلیئر ڈیمیج) کے لیے ذمہ داری ایکٹ 2010 میں ترمیم کا یقین بھی دیا گیا ہے، جس کا مطالبہ امریکی کمپنیاں طویل مدت سے کر رہی تھیں۔‘‘
ان حقائق کو پیش کرنے کے بعد جئے رام رمیش نے کہا ہے کہ ’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وزیر اعظم اس دورے میں ہندوستان اور امریکہ کے درمیان کئی معاہدے کیے جائیں گے اور دفاعی خرید سے جڑے معاہدوں کو آخری شکل دی جائے گی۔ پھر بھی، ہمارے پاس وزیر اعظم کے لیے 5 سوالات ہیں۔‘‘ کانگریس لیڈر نے جو سوالات پوچھے ہیں، وہ اس طرح ہیں:
- کیا وزیر اعظم مودی میں اتنی ہمت ہوگی کہ وہ امریکی صدر کے سامنے ہندوستانی شہریوں کو غیر انسانی طریقے سے کچھ دن پہلے جبراً واپس بھیجے جانے پر ہندوستان کی طرف سے اجتماعی ناراضگی ظاہر کریں؟
- کیا وزیر اعظم مودی امریکی صدر سے یہ کہیں گے کہ مستقبل میں ہندوستانی تارکین وطن کو امریکہ سے واپس لانے کے لیے وینزوئلا اور کولمبیا کی طرح اپنا خود کا طیارہ بھیجے گا؟
- کیا پی ایم مودی فلسطین پر ہندوستان کی طویل مدتی پالیسی کو دہرائیں گے اور غزہ کو لے کر امریکی صدر کے ذریعہ پیش کردہ عجیب تجویز پر ہندوستان کی طرف سے سخت اعتراض درج کرائیں گے؟
- کیا پی ایم مودی صدر ٹرمپ کو واضح طور سے بتائیں گے کہ پیرس ماحولیاتی سمجھوتہ اور ڈبلیو ایچ او سے امریکہ کا ہٹنا نہ صرف اس کے قائدانہ کردار سے پیچھے ہٹنا ہے بلکہ اس کی عالمی ذمہ داری سے بھی پلّہ جھاڑنا ہے؟
- کیا پی ایم مودی امریکی صدر سے واضح طور پر کہیں گے کہ ایچ 1 بی ویزا ہولڈرس، جن میں 70 فیصد سے زیادہ ہندوستانی نوجوان ہیں، پر امریکہ میں ہو رہے نسلی حملے ہندوستان کے لیے ناقابل قبول ہیں؟ ایچ 1 بی ویزا سے دونوں ممالک کو فائدہ ہوا ہے، اور اسے جاری رکھا جانا چاہیے۔
- کیا پی ایم مودی ایلن مسک کو واضح طور سے یہ کہیں گے کہ اگر ٹیسلا ہندوستان کو اپنی الیکٹرک گاڑیوں کے لیے مارکیٹ مانتی ہے تو اسے ہندوستان میں اپنی مصنوعات کو صرف اسیمبل ہی نہیں کرنا ہوگا، بلکہ یہیں انھیں مینوفیکچر بھی کرنا ہوگا؟
- اسٹار لنک کے ضمن میں کیا پی ایم مودی اسپیکٹرم کی نیلامی (ایڈمنسٹریٹو طریقے سے الاٹمنٹ نہیں) کی پالیسی کو دہرائیں گے، جس کی پالیسی انھوں نے مئی 2014 میں وزیر اعظم بننے کے بعد اختیار کی تھی؟ کیا وہ یہ بھی واضح کریں گے کہ سیٹلائٹ انٹرنیٹ فراہم کنندہ کے ضمن میں سیکورٹی سے متعلق فکریات پوری طرح سے غیر سمجھوتہ پر مبنی ہیں؟