علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) میں ’بیف بریانی‘ پیش کیے جانے سے متعلق ہنگامہ برپا ہو گیا ہے۔ یونیورسٹی نے اتوار کے روز سر شاہ سلیمان میں بیف بریانی پیش کیے جانے کا نوٹس جاری کیا تھا، اسی نوٹس پر ہنگامہ شروع ہو چکا ہے۔ نوٹس سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر وائرل ہو گیا ہے۔ ایک بی جے پی لیڈر ڈاکٹر نشت شرما کا الزام ہے کہ یہ نوٹس اے ایم یو انتظامیہ کی شرمناک حرکت ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ نوٹس میں لکھا گیا ہے کہ سر شاہ سلیمان ہال میں چکن بریانی کی جگہ بیف بریانی فراہم کی جائے گی، جس سے اشارہ مل رہا ہے کہ انتظامیہ ایسے کٹر پسند عناصر کو حوصلہ بخش رہا ہے۔ اس تعلق سے کیس درج کیے جانے کی خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں، اور بتایا جا رہا ہے کہ پولیس پورے معاملے کی تحقیقات کرے گی۔
جب اس معاملے نے طول پکڑا تو اے ایم یو انتظامیہ کی طرف سے وضاحت سامنے آئی۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ ٹائپنگ کی غلطی ہے، پہلے کی طرح چکن بریانی ہی پیش کیا جائے گا۔ ساتھ ہی یونیورسٹی انتظامیہ نے ذمہ داران کو وجہ بتاؤ نوٹس جاری کر دیا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اسی طرح کا ہنگامہ ایک مرتبہ پہلے بھی یونیورسٹی میں برپا ہو چکا ہے۔ معاملہ 2016 کا ہے جب یونیورسٹی میں بیف بریانی کو لے کر تنازعہ شروع ہوا تھا۔ کھانے کے مینو میں ’بیف بریانی‘ جوڑا گیا تھا، لیکن یونیورسٹی نے کہا تھا کہ ’ہم نے بَف میٹ جوڑا تھا‘۔
بیف اور بَف میٹ کے تعلق سے کچھ لوگوں کو جانکاری نہیں ہے، حالانکہ ان دونوں میں ایک واضح فرق ہے۔ آسان زبان میں سمجھیں تو بیف میٹ کا مطلب گائے، بچھڑا، بیل اور بھینس کا گوشت ہوتا ہے۔ ان سبھی کے گوشت کو بیف کے زمرہ میں رکھا گیا ہے۔ حالانکہ ایک زمرہ ’بَف میٹ‘ کا بھی ہے جس میں صرف بھینس کا گوشت شامل ہوتا ہے۔ ’بیف بریانی‘ پر اے ایم یو میں ہنگامہ اس وجہ سے بھی ہوا کیونکہ اتر پردیش میں گئوکشی پر مکمل پابندی ہے۔ ’گئو مانس‘ (گائے کے گوشت) کی بات کریں تو اس کا مطلب صرف گائے اور بچھڑے کا گوشت ہے۔ اتر پردیش ہی نہیں ہریانہ، کشمیر، ہماچل پردیش، پنجاب، اتراکھنڈ، راجستھان، مدھیہ پردیش، گجرات، مہاراشٹر، چھتیس گڑھ، دہلی اور چنڈی گڑھ وغیرہ ریاستوں میں بھی گئوکشی پر پابندی ہے۔