واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک نیا ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا ہے جس کا مقصد امریکہ کے تعلیمی اداروں میں یہود دشمنی سے نمٹنا اور فلسطین حامی مظاہروں میں شامل غیر ملکیوں کے خلاف کارروائی کرنا ہے۔ اس حکم نامے کے تحت ایسے طلبہ کے ویزے فوری طور پر منسوخ کر دیے جائیں گے جو حماس کے لیے ہمدردی رکھتے ہیں یا فلسطین حامی مظاہروں میں شریک ہوتے ہیں۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ اکتوبر 2023 میں حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد امریکی یونیورسٹیوں میں یہود دشمنی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے ایک اہلکار کے مطابق، یہ اقدام امریکی یہودی کمیونٹی کو تحفظ فراہم کرنے اور ان کے خلاف نفرت انگیز کارروائیوں کی روک تھام کے لیے ضروری ہے۔
ٹرمپ نے کہا، “جو لوگ ان مظاہروں کا حصہ رہے ہیں، ہم ان کو ڈھونڈیں گے اور ملک بدر کریں گے۔” انہوں نے مزید کہا کہ کالج کیمپسز میں بنیاد پرستی سے متاثر طلبہ کے ویزے فوری طور پر منسوخ کیے جائیں گے۔
ایک دستاویز کے مطابق، امریکی محکمہ انصاف نے وعدہ کیا ہے کہ وہ یہود دشمن دھمکیوں، آتشزدگی، توڑ پھوڑ اور تشدد کے خلاف فوری کارروائی کرے گا۔ حکم نامے میں ایجنسیوں اور محکموں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ 60 دنوں کے اندر سفارشات پیش کریں جو یہود دشمنی کے خاتمے کے لیے استعمال کی جا سکیں۔
دستاویز میں یہ بھی کہا گیا کہ حماس کے حامی مظاہرین نے یہودی طلبہ کو کلاسوں میں جانے سے روکا، عبادت گاہوں پر حملے کیے، اور یادگاروں کو نقصان پہنچایا۔
تاہم، فلسطین حامی مظاہرین نے یہود دشمنی کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کے مظاہرے اسرائیل کی غزہ پر فوجی کارروائی کے خلاف ہیں، جہاں اب تک 47,000 سے زائد افراد جان بحق ہو چکے ہیں۔ ایک بڑے مسلم ایڈوکیسی گروپ ‘کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز’ نے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ حکم آزادی اظہار کے حقوق کے خلاف ہے اور ناقابل نفاذ ہے۔
یاد رہے کہ 2024 کی انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکہ میں حماس حامی طلبہ کو ملک بدر کریں گے۔