جب مہاتما گاندھی فروری 1921 میں ایودھیا-فیض آباد آئے تو انہوں نے اپنی تحریک میں شامل ان کسانوں کو، جو تشدد سے باز نہیں آ رہے تھے، یہ کہتے ہوئے عدم تشدد کے راستے پر چلنے کی تلقین کی کہ تشدد بہادری نہیں بلکہ بزدلی کی علامت ہے۔ اسی طرح، انہوں نے خلافت تحریک کے ان پیروکاروں سے، جو ان کے استقبال میں ننگی تلواریں لیے کھڑے تھے، کہا کہ تلواریں کمزوروں کا ہتھیار ہیں۔ بیسویں صدی کی سب سے عاجز عظیم شخصیت کے طور پر مہاتما گاندھی کے لیے یہ فطری بات تھی کہ وہ ایسے اعلیٰ پیغامات دینے کے لیے رام کی جائے پیدائش یا راجدھانی کو منتخب کرتے اور اس وقت کے رہائشی نسل در نسل اس یاد کو زندہ رکھتے اور فخر محسوس کرتے۔
اب تک یہ روایت کسی حد تک قائم رہی لیکن آج یہ یاد ایک بڑی ستم ظریفی سے دوچار ہے۔ رام کے پانچ سو سالہ مبینہ/مشہور انتظار کے اختتام کی مناسبت سے جاری تقاریب اور روشنیوں کے بیچ مہاتما گاندھی کی اہمیت بری طرح کم ہو چکی ہے، بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ کم کر دی گئی ہے، کچھ اس انداز میں کہ وہ اجنبی سے محسوس ہونے لگے ہیں۔ اس اجنبیت کی انتہا یہ ہے کہ تاریخی رام کی پیڑی پر نصب ان کے مجسمہ کی حالت بھی خراب ہے اور اسے حقیر سمجھا جا رہا ہے۔
یاد رہے، 1988 میں گاندھی گیان مندر ٹرسٹ کی کوششوں سے یہ مجسمہ عین اسی مقام پر نصب کیا گیا تھا، جہاں 1948 میں ناتھورام گوڈسے کے ہاتھوں مہاتما گاندھی کے بہیمانہ قتل کے بعد ان کی راکھ لے کر آنے والے ملک کے پہلے صدر ڈاکٹر راجندر پرساد نے ان کی راکھ کو سرجو ندی میں بہایا تھا۔ گاندھی گیان مندر نے تب سے یہ روایت قائم کر رکھی ہے کہ ہر 12 فروری کو گاندھی کے ’شرادھ دیوس‘ پر ان کے مجسمے کے سامنے رام دھُن گائی جاتی ہے اور انہیں خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ 1948 میں مہاتما گاندھی کی استھیاں سرجو ندی میں بہائی گئیں تو یہ ندی اس مقام کو چھوتی ہوئی بہتی تھی جہاں ان کا مجسمہ نصب ہے۔ تاہم، وقت کے ساتھ سرجو ندی نے اپنا راستہ بدل لیا اور یہ جگہ ندی سے دور ہو گئی۔ بعد میں، ایودھیا کی ثقافتی شان و شوکت کو بڑھانے کی ایک اسکیم کے تحت سرجو کے پانی کو دوبارہ اس جگہ تک پہنچانے کے لیے رام کی پیڑی کا قیام عمل میں لایا گیا۔
حقیقت میں، اس مجسمے کی بے قدری کی سب سے بڑی وجہ رام کی پیڑی کی منصوبہ بندی کرنے والوں کی جانب سے مہاتما گاندھی کی استھی وسرجن کے مقام کو مسلسل نظرانداز کرنا ہے۔ گزشتہ صدی کے نویں عشرے میں رام کی پیڑی کا تصور پیش کیے جانے سے لے کر اس کی تعمیر کے دوران ہونے والی تاخیر تک، اس جگہ کو یکسر نظرانداز کیا گیا اور اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا گیا۔
1988 میں گاندھی جینتی کے موقع پر ایک مقامی مندر کے مہنت کوشل کشور شرن پھلاہاری نے گاندھی گیان مندر ٹرسٹ کے اس وقت کے صدر اکشے کمار کرن اور وزیر راج بہادر دیویدی کی موجودگی میں اس استھی وسرجن کے مقام پر مجسمے کی نقاب کشائی کی۔ اس کے بعد بھی رام کی پیڑی کی ڈیزائن کو بہتر بنانے اور خوبصورتی کے دیرینہ منصوبے جاری رہے لیکن ان میں اس مجسمے کو کوئی اہمیت نہ دی گئی۔
نتیجتاً، رام کی پیڑی کی طرف مجسمے کی پشت ہے اور یہ وہاں ایک اضافی چیز محسوس ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ مجسمے کے اردگرد بے شمار تجاوزات اور غیر قانونی قبضوں نے اس کی حالت اتنی خراب کر دی ہے کہ گاندھی کے یومِ پیدائش یا یومِ شہادت کے موقع پر بھی اس پر رسمی طور پر مالا چڑھانا دشوار ہو گیا ہے۔ گاندھی گیان مندر ٹرسٹ کے سیکریٹری گنگا پرساد اوستھی کا کہنا ہے کہ یہ حالت تب ہے جب استھی وسرجن کے بعد آزادی کے مجاہدین کی درخواست پر اتر پردیش کی اس وقت کی حکومت نے مہاتما گاندھی کے خیالات کے فروغ، کھادی کی تشہیر، یادگاروں کے تحفظ اور ان سے جڑے دیگر تخلیقی کاموں کے لیے ٹرسٹ کو 21,000 مربع فٹ زمین الاٹ کی تھی۔ اب اس زمین کا بڑا حصہ غیر قانونی قبضوں اور تجاوزات کی زد میں ہے۔
اوستھی کے مطابق، تجاوزات کرنے والوں میں سب سے بڑا اتر پردیش حکومت کا آبپاشی محکمہ ہے۔ اس محکمے کے ایودھیا فلڈ ورک ڈویژن اور ایودھیا سرجو نہر ڈویژن کی رام کی پیڑی تعمیر کرنے والی یونٹ نے تعمیر کے آغاز میں مواد رکھنے کے لیے گیان مندر ٹرسٹ کی زمین پر کمروں کی شکل میں دیواریں کھڑی کر کے ان پر شیڈ لگا دیا تھا۔
گیان مندر ٹرسٹ کی جانب سے اس پر اعتراض کرنے اور منع کرنے پر محکمہ نے یقین دہانی کروائی تھی کہ پیڑی کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد زمین کو خالی کر کے ٹرسٹ کے حوالے کر دیا جائے گا۔ چونکہ معاملہ کسی فرد کا نہیں بلکہ ایک سرکاری محکمے کا تھا، اس لیے ٹرسٹ نے اس یقین دہانی پر بھروسہ کر لیا اور ان کی نیت پر شک نہیں کیا لیکن اس وقت سے لے کر آج تک متعدد خطوط لکھ کر یاد دہانی کروانے اور زمین خالی کرنے کی درخواست کے باوجود آبپاشی محکمہ نے مذکورہ زمین خالی کرنا گوارا نہیں کیا۔
ضلع مجسٹریٹ سے مداخلت کی درخواست بھی، ان سطور کے لکھے جانے تک، بے اثر ہی ثابت ہوئی ہے۔ اوستھی کے مطابق، اس صورتحال نے نہ صرف ٹرسٹ کے روزمرہ کے کاموں اور طے شدہ پروگراموں کی تنظیم میں رکاوٹیں پیدا کی ہیں بلکہ گاندھی لٹریچر کے لیے ایک کتب خانہ کی تعمیر کی منصوبہ بندی بھی ناکام ہو گئی ہے۔
اس پر مزید المیہ یہ ہے کہ گیان مندر کے علاقے کو صفائی کے لحاظ سے بھی مکمل طور پر نظرانداز کر دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے عام طور پر یہاں کچرا، گندگی اور بدبو کا راج رہتا ہے۔ شام ہوتے ہی اس علاقے میں نشے کے عادی افراد بھی جمع ہو جاتے ہیں۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ مہاتما گاندھی کا یہ مجسمہ اپنے مختصر دور میں کئی تاریخی واقعات کا شاہد رہ چکا ہے۔ ان میں ایک 1992 کا واقعہ بھی شامل ہے، جب بابری مسجد کے انہدام کے چند دن بعد کار سیوکوں نے اس مجسمہ کے قریب گاندھیائی کارکنوں پر حملہ کیا تھا، جو سب کی بھلائی، امن اور ہم آہنگی کے لیے رام دھُن گا رہے تھے۔ ان کارکنوں کو بری طرح زخمی کیا گیا اور پولیس نے انہیں مناسب تحفظ فراہم نہیں کیا لیکن اس کے باوجود، یہ گاندھیائی کارکن اپنے اصولی موقف پر قائم رہے۔
شکر ہے کہ فیض آباد کے گاندھی پارک میں نصب مہاتما گاندھی کے مجسمہ کی حالت رام کی پیڑی کے مجسمے جتنی خراب نہیں ہے۔ 2012 میں، فیض آباد میونسپلٹی کے کانگریسی صدر وجے گپتا کی پہل پر اس پارک کی تزئین و آرائش کی گئی تھی۔ تاہم، اب اس کا ایک حصہ سڑکوں کو چوڑا کرنے کی مہم کی نذر ہو چکا ہے۔