دہلی کو 1991 میں پہلی قانون ساز اسمبلی ملنے کے بعد جب سال 1993 میں اسمبلی کے لئے انتخابات ہوئے تو ان انتخابات میں بی جے پی نے بازی ماری اور اس نے 70 میں سے 49 سیٹیں جیتیں۔ دہلی میں اس وقت بھی ناراضگی کے باوجود کانگریس نے 14 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی جبکہ اقلیتوں نے جنتا دل کے حق میں اپنا ووٹ دیا تھا۔ واضح رہے کہ اقلیتوں کی اکثریت والے اسمبلی حلقوں میں سے صرف بلی ماران، جہاں سے ہارون یوسف کو کامیابی ملی تھی، کو چھوڑ کر باقی 3 علاقوں سے جنتا دل کے امیدوار ہی کامیاب ہوئے تھے۔ سال 1993 کے انتخابات میں بی جے پی کو جہاں 49 نشستوں میں کامیابی ملی تھی وہیں کانگریس کو 14، جنتا دل کو 4 اور آزاد امیدواروں کو 3 نشستوں پر کامیابی ملی تھی۔ یعنی 1992 کی ناراضگی اور متبادل ہونے کے باوجود دہلی کے اقلیتوں اور دلتوں نے کانگریس کے حق میں اپنی رائے دی تھی لیکن اس کے بعد سے بہت پانی بہہ گیا ہے۔
سال 1998 میں دہلی والے بی جے پی سے اتنے ناراض ہوئے کہ شیلا دکشت کی قیادت والی کانگریس کی جھولی میں 52 سیٹیں ڈال دیں اور بی جے پی کو 15 سیٹیں جبکہ جنتا دل کو صرف ایک سیٹ (شعیب اقبال) حاصل ہوئی۔ کہا جاتا رہا ہے کہ وہ سیٹ جنتا دل نے نہیں بلکہ شعیب اقبال نے جیتی تھی۔ اسی کے ساتھ دو آزاد امیدوار بھی کامیاب رہے۔ شیلا دکشت نے اندرونی بغاوت کا ضرور سامنا کیا لیکن انہوں نے ترقیاتی کاموں سے اپنے ناقدین کے منہ بند کر دئے اور پھر 3 بار یعنی کل 15 سال تک دہلی پر راج کیا، جس کو دہلی کے عوام آج تک یاد کرتے ہیں لیکن اس کے بعد کانگریس نے 2013 میں 8 نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور اس کے بعد سے 2 اسمبلی انتخابات میں کانگریس کا کھاتہ بھی نہیں کھلا یعنی ان کے تمام ووٹر نئی پارٹی عام آدمی پارٹی کی جانب چلے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ عام آدمی پارٹی نے اپنے پہلے ہی انتخابات میں تاریخی جیت رقم کی جس میں اس نے 70 میں سے 67 سیٹیں جیتں جبکہ 2020 میں بھی اس کی کارکردگی اچھی رہی، تاہم 2015 جیسی نہیں رہی اور اس مرتبہ اس نے 62 سیٹوں پر جیت درج کی۔ اب صورت حال یہ ہے عام آدمی پارٹی کو 10 سالہ اقتدار مخالف لہر کا سامنا ہے، شہروں کے غیر مسلم ووٹر کافی جارح نظر آتے ہیں، اقلیتوں اور دلتوں کی ناراضگی ہے اور اعلی قیادت کا جیل جانا، ایسی وجوہات ہیں، جنہوں نے عام آدمی پارٹی کی ان انتخابات میں نیند اڑا دی ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں دہلی کے لوگ ناراضگی اور کام کرنے کی وجہ سے ہی اپنا ووٹ دیا کرتے تھے، جبکہ اس زمانے میں بھی انتخابی دھاندلیوں کی خبریں عام ہوتی تھیں۔ اب انتخابات کا چلن بدل گیا ہے اور رائے دہندگان دور رس نتائج کی بنیاد پر اپنی رائے کا اظہار نہیں کرتے بلکہ رائے دیتے وقت اپنا ذاتی وقتی فائدہ دیکھتے ہیں، چاہے مبصرین اسے رشوت کا نام ہی کیوں نہ دیتے رہیں۔ اس نئے چلن کے لئے تمام سیاسی پارٹیاں ذمہ دار ہیں اور ان سیاسی پارٹیوں کے لئے بھی آسانی ہو گئی ہے کہ وقتی اعلانات کیجئے اور اقتدار میں آنے کے بعد کوشش کیجئے کہ وعدے پورے کر دیں، باقی گورننس اور فلاحی کاموں سے کوئی مطلب نہیں!
کیجریوال نے بھی کچھ ایسا ہی دہلی والوں کے ساتھ کیا۔ انہوں نے دہلی میں بجلی، پانی اور خواتین کے مفت سفر کو ہی ترجیح دی اس کے علاوہ صرف وہ ہی کام اور اعلان کئے جس کا رہنماؤں اور پارٹی کی وسعت میں کوئی کردار ہو۔ لوگ آج بھی کانگریس کی شیلا دکشت حکومت کی تعریف کرتے ہیں لیکن اس کے حق میں رائے نہیں دیتے کیونکہ ان کی نظر میں جو پارٹی اقتدار میں ہیں چاہے مرکز میں ہوں یا ریاست میں، وہی ان کو وقتی فائدہ پہنچا سکتی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کچھ سیاسی پارٹیاں عوام کے جذبات کا بھی استحصال کرتی ہیں اور ان کو اس کا فائدہ بھی ہوتا چاہے اقتدار کی شکل میں یا مالی شکل میں۔
ضرورت اس بات کی ہے کے عوام دوراندیشی سے کام لیتے ہوئے شہر اور ریاست کے فائدہ کو نظر میں رکھتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار کریں اور ذاتی وقتی مفادات کو ترجیح نہ دیں۔ دہلی کے عوام کے تعلق سے یہ کہا جاتا ہے کہ وہ تعلیم یافتہ ہیں اس لئے ان سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ دوراندیشی سے کام لیں گے۔ دہلی کے ووٹروں جذبات میں بہہ کر اپنے ووٹ کو ضائع نہیں کرنا چاہئے۔