آج سال 2024 کا آخری دن ہے۔ گزرے سال میں ہر سال کی طرح بہت سی چیزیں ایسی ہوئیں جن سے کچھ امیدیں بندھی اور کچھ چیزیں ایسی ہوئیں جن کو لے کر ایک بڑا طبقہ مایوس ہوا۔ جہاں لوک سبھا کے نتائج، پرینکا کا وائناڈ سے منتخب ہونا، ونیش پھوگاٹ کا سیاست میں داخلہ، شطرنج میں گوکیش کی شاندار کامیابی نے جہاں ایک طبقہ کی امیدوں کو جگایا، وہیں ہندوستان کے سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کے گھر پر وزیر اعظم کی تصاویر اور ان کا یہ کہنا کہ بابری مسجد تنازعہ کے فیصلہ میں ان کی رہنمائی ’بھگوان نے کی‘، ڈونالد ٹرمپ کا دوبارہ امریکی صدر بننا، بنگلہ دیش کے سیاسی حالات، ایرانی صدر ابراہیم رئیسی، حسن نصراللہ، کارپوریٹ گھرانے کے مالک رتن ٹاٹا، طبلہ نواز استاد ذاکر حسین اور سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے سانحۂ ارتحال نے دنیا کے ایک بڑے طبقہ کو مایوس کیا۔
سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کی آخری رسومات کو لے کر جو تنازعہ ہوا اس سے تو زیادہ تر لوگ واقف ہی ہیں لیکن خراج عقیدت کے طور پر ان کے تعلق سے جو کچھ کہا اور لکھا گیا اس نے ان کے قد اور شخصیت کو وہاں پہنچا دیا جہاں ہندوستان کے چند سیاستدانوں کو چھوڑ کر کوئی اور نہیں پہنچ پایا۔ جہاں دانشوروں اور مبصرین نے ان کی شخصیت کے ہر پہلو کو اجاگر کیا وہیں سب نے ایک بات پر اتفاق کیا کہ ان کے تعلق سے کوئی کچھ بھی کہے لیکن وہ نہایت دیانتدار اور سادگی پسند انسان تھے۔
اس پورے معاملے میں، اگر کسی طبقے نے مکمل خاموشی اختیار کی ہے تو وہ ہماری فلمی شخصیات ہیں، سوائے ابھرتے ہوئے گلوکار دلجیت کے۔ وہ فلمی ستارے، جو آج کامیاب اداکار سمجھے جاتے ہیں، اپنی کامیابی کا سہرا عام ہندوستانیوں کو دیتے ہیں، جنہوں نے ان کی فلموں کو دیکھا اور سراہا لیکن ان اداکاروں پر ایسی خاموشی طاری ہے گویا انہیں سانپ سونگھ گیا ہو۔ لگتا ہے کہ اگر انہوں نے کچھ کہا تو ان کی زندگی کسی عذاب میں گرفتار ہو جائے گی۔ جیسے اگر انہوں نے منموہن سنگھ کے بارے میں کوئی بات کہی تو ان پر پہاڑ ٹوٹ پڑے گا۔
کیا یہ لوگ ہندوستان کا حصہ نہیں ہیں؟ کیا ان کا کردار صرف روبوٹ کی طرح عوام کو تفریح فراہم کرنے تک محدود ہے؟ ان کی خاموشی کئی سوالات کو جنم دیتی ہے اور یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ کیا یہ شخصیات اپنے سماجی اور اخلاقی فرائض سے غافل ہو چکی ہیں؟
منموہن سنگھ صرف ایک پارٹی کے رکن، وزیر یا وزیر اعظم نہیں تھے بلکہ وہ ایک شخصیت کے مالک تھے جنہوں نے ملک کی معیشت کو صحیح سمت کی طرف موڑنے میں اہم کردار ادا کیا اور جس کا لوہا دنیا کے کئی سربراہوں نے مانا۔ وہ لوگ بھی جو منموہن سنگھ کے سخت مخالف تھے، یا جن کے سخت مخالف خود منموہن سنگھ تھے، نہ صرف ان کی شخصیت بلکہ ان کی دیانتداری کی بھی دل کھول کر تعریف کرتے رہے۔
فلمی اداکار اور اداکارائیں اس پورے معاملے میں اس طرح خاموش رہے جیسے ان کے کسی بات یا رائے دینے سے ان کا سماج میں حقہ پانی بند ہو جائے گا۔ اگر وہ سماج کا حصہ ہیں تو انہیں بغیر کسی جھجک یا خوف کے اپنی رائے ظاہر کرنی چاہیے۔ عوام یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ان کے ہیرو اور ہیروئن کی سوچ کیا ہے لیکن یہ فلمی ستارے اس خوف کے زیر اثر ہیں کہ کہیں ان کی رائے ان کی اگلی فلم کی کامیابی کو متاثر نہ کر دے۔ عوام فلمیں صرف ان کی رائے کی بنیاد پر نہیں دیکھتے بلکہ کہانی اور ان کے ادا کیے گئے کرداروں کے لیے دیکھتے ہیں۔ اس کے باوجود، ان اداکاروں کا یہ رویہ مایوس کن ہے۔
امیتابھ بچن کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن ریتک روشن، سلمان خان، شاہ رخ خان اور دیگر سے یہ سوال ضرور ہے کہ کیا وہ واقعی اس سماج کا حصہ ہیں یا صرف عوام کی تفریح کے لیے روبوٹ سے زیادہ کچھ نہیں؟ اگر یہ اداکار اپنے رویے میں تبدیلی نہیں لاتے، تو پھر عوام کو بھی سوچنا چاہیے کہ ایسے مفاد پرست اور خوفزدہ اداکاروں پر اپنا وقت اور پیسہ خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اگر انہیں خوف لاحق ہے تو عوام کو ایسے مفاد پرست اور بزدل اداکاروں کی کوئی ضرورت نہیں۔ کاش! آنے والے سال میں ان کے رویے میں تبدیلی آئے۔ فی الحال تو یہی کہا جا سکتا ہے ’یہ سال تو گزر گیا، اگلا سال تو اچھا سال رہے۔‘