پنجاب میں ہوئے پنچایت انتخاب میں تقریباً 3000 امیدوار بلامقابلہ منتخب ہوئے تھے۔ اس معاملے کو سپریم کورٹ نے ’انتہائی حیرت انگیز‘ بتایا ہے اور چیف جسٹس سنجیو کھنہ نے حیرانی ظاہر کی ہے کہ ایسا کیونکر ہوا! دراصل اس معاملے میں کئی امیدواروں نے عدم اطمینان ظاہر کیا ہے اور سپریم کورٹ نے پیر کے روز انھیں الیکشن کمیشن میں انتخابی عرضی داخل کرنے کی اجازت دے دی۔
چیف جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس سنجے کمار کی بنچ نے کئی امیدواروں کا پرچہ نامزدگی خارج کرنے اور دیگر انتخابی بے ضابطگیوں کا الزام عائد کیے جانے سے متعلق عرضی پر قبل میں نوٹس جاری کیا تھا۔ بنچ نے کہا کہ متاثرہ شخص الیکشن کمیشن کے سامنے انتخابی عرضی داخل کر سکتے ہیں اور کمیشن کو 6 ماہ میں ان پر فیصلہ کرنا ہوگا۔ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ جن امیدواروں کا پرچہ نامزدگی خارج کر دیا گیا یا پھاڑ دیا گیا، وہ بھی اپنی شکایتیں لے کر پنجاب و ہریانہ ہائی کورٹ جا سکتے ہیں۔ عدالت کا مزید کہنا ہے کہ ان کی عرضیوں کو مدت کار کی خلاف ورزی کی بنیاد پر خارج نہیں کیا جا سکتا۔ چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ عرضیوں کو خوبی و خامی کی بنیاد پر نمٹایا جانا چاہیے۔
عدالت عظمیٰ نے جو حکم صادر کیا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ ’’ہم عرضی دہندہ کو انتخابی عرضی داخل کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ ریاستی الیکشن کمیشن 6 ماہ میں عرضیوں پر فیصلہ کرے گا۔ تاخیر ہونے پر عرضی دہندہ ہائی کورٹ جا سکتا ہے۔‘‘ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’جن لوگوں کی نامزدگی خارج کر دی گئی یا کاغذات پھاڑ دیے گئے وہ قانون کے مطابق ہائی کورٹ کے سامنے تجزیہ کی عرضی داخل کر سکتے ہیں۔ اگر ہائی کورٹ میں ان کی عرضی خارج کر دی جاتی ہے تو عرضی دہندہ کو اس عدالت (سپریم کورٹ) میں آنے کا حق ہے۔‘‘
18 نومبر کو ہوئی مختصر سماعت کے دوران جب عدالت عظمیٰ کو بتایا گیا کہ پنچایت کے 13 ہزار سے زیادہ عہدوں میں سے 3 ہزار پر امیدوار بلامقابلہ منتخب ہوئے ہیں، تو چیف جسٹس نے حیرانی ظاہر کی۔ انھوں نے کہا کہ ’’یہ بہت عجیب ہے۔ میں نے ایسے اعداد و شمار کبھی نہیں دیکھے۔ یہ بہت بڑی تعداد ہے۔‘‘ ایک وکیل نے سماعت کے دوران دعویٰ کیا کہ انتخاب کے دوران ایک امیدوار کا انتخابی نشان ہٹا دیا گیا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے اس بات پر بھی حیرانی ظاہر کی کہ ہائی کورٹ نے سینکڑوں عرضیوں کو متاثرہ فریقین کی بات مناسب طریقے سے سنے بغیر خارج کر دیا۔ بنچ نے 18 اکتوبر کو سنیتا رانی اور دیگر کے ذریعہ داخل عرضی پر نوٹس جاری کیا جس میں 15 اکتوبر کو ہوئے پنچایت انتخاب میں بے ضابطگیوں کا الزام عائد کیا گیا تھا۔