دہلی میں لوک سبھا انتخابات انتہائی دلچسپ شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ سال 2014 اور سال 2019 کے برعکس سال 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں عام آدمی کسی کے جیتنے یا ہارنے کی گارنٹی نہیں لے رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دہلی کے عوام نے چپ رہنے کا روزہ رکھا ہوا ہے اور اگر وہ بول رہے ہیں تو سامنے والے شخص کے حساب سے بول رہے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ انتخابی مقابلہ دو اتحاد کے درمیان ہے جس میں ایک جانب این ڈی اے ہے جس کی جانب سے تمام سیٹوں پر بی جے پی کے امیدوار میدان میں ہیں اور دوسری جانب انڈیا نامی اتحاد نے عام آدمی پارٹی اور کانگریس کے درمیان آپس میں سیٹوں کو تقسیم کیا ہے یعنی کی سات میں سے چار سیٹوں پر عام آدمی پارٹی اور تین پر کانگریس پارٹی انتخابی میدان میں ہے۔
کی سات سیٹوں میں سے جن چار سیٹوں پر عام آدمی پارٹی لڑ رہی ہے اس میں مشرقی دہلی پارلیمانی سیٹ سے کلدیپ کمار، جنوبی دہلی پارلیمانی حلقہ سے سہی رام بڈھوڑی، مغربی دہلی پارلیمانی سیٹ سے مہابل مشرا اور نئی دہلی پارلیمانی سیٹ سے سومناتھ بھارتی ہیں۔ اتحاد کے تحت جن تین سیٹوں پر کانگریس لڑ رہی ہے اس میں شمال مشرقی دہلی پارلیمانی سیٹ سے کنہیا کمار، چاندنی چوک پارلیمانی سیٹ سے جے پرکاش اگروال اور دہلی کی واحد محفوظ سیٹ یعنی شمال مغرب پارلیمانی سیٹ سے ادت راج لڑ رہے ہیں۔ دوسری جانب بی جے پی نے مشرقیسے گوتم گمبھیر کی جگہ ہرش ملہوترا کو میدان میں اتارا ہے۔ جنوبی سے رمیش بدھوڑی کی جگہ رام ویر سنگھ بدھوڑی میدان میں ہیں۔ مغربی دہلی پارلیمانی سیٹ سے پرویش ورما کی جگہ کمل جیت سہراوت پر جوا کھیلا ہے۔ نئی دہلی پارلیمانی حلقہ سے میناکشی لیکھی کی جگہ بانسری سوراج کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔ چاندنی چوک پارلیمانی سیٹ سے ہرش وردھن کی جگہ پروین کھنڈیلوال کو امیدوار بنایا ہے۔ محفوظ سیٹ سے ہنس راج ہنس کی جگہ یوگیندر چندولیا پر داؤ لگایا ہے جبکہ شمال مشرق دہلی واحد وہ پارلیمانی سیٹ ہے جہاں سے بی جے پی نے اپنا امیدوار نہیں بدلا ہے اور اس نے منوج تیواری کو ہی وہاں کا چہرہ بنایا ہے۔
کی ساتوں پارلیمانی سیٹوں کو شہری آبادی والی سیٹیں شمار کیا جاتا ہے اور یہاں بی جے پی کی اجارہ داری گزشتہ بیس سالوں سے رہی ہے اور یہاں کے ووٹر اکثر کسی ایک پارٹی کے حق میں حمایت کرتے رہے ہیں۔ ووٹر کی ایک پارٹی میں حمایت کی وجہ یہ کہی جا سکتی ہے کہ ایک مخصوص قسم کی چھوٹی ریاست ہے جس میں ووٹر کی رہائش شمال مشرق دہلی میں ہے اور کام کی جگہ جنوبی دہلی، نئی دہلی اور چاندنی چوک ہے یعنی اس کے ذہن کو اس کی رہائش اور کام کی جگہ متاثر کرتے ہیں۔ رہائش اور کام کی جگہ کا یہ باہمی اثر رائے دہندگان کی رائے اور بات چیت کو تشکیل دیتا ہے، جس کے نتیجے میں زیادہ تر انتخابات میں ایک پارٹی کی مسلسل حمایت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ انتخابات کو چھوڑ کر یہاں کے لوگوں نے اپنی رائے ایک ہی پارٹی کے حق میں جتائی ہے۔
دو طرح کی تقسیم یہاں اب واضح ہو گئی ہے ایک مذہب کی بنیاد پر اور دوسری معیشت کی بنیاد پر۔ مذہب کی بنیاد پر یعنی میں رہنے والے مسلمان پورے ملک کی طرح بی جے پی کے خلاف ووٹ کرتے نظر آتے ہیں اور ان کی میں کل آبادی 12 فیصد ہے، جس کی بنیاد پر وہ تیسرے نمبر پر ہیں یعنی او بی سی جن کی دہلی میں سب سے زیادہ 35 فیصد آبادی ہے اور جس کے بعد دوسرے نمبر پر دلت آبادی 17 فیصد ہے۔ ان انتخابات میں جہاں انڈیا نامی اتحاد کو 12 فیصد کا شروعاتی فائدہ نظر آتا ہے وہیں این ڈی اے کو رام مندر کی تعمیر کا شروعاتی فائدہ نظر آ تا ہے۔ معاشی طور پر منقسم سماج میں بھی امیر اور مڈل کلاس کا ایک طبقہ این ڈی اے کا حامی ہے وہیں شہر کا غریب طبقہ انڈیا نامی اتحاد کے ساتھ کھرا نظر آتا ہے۔
چاندنی چوک میں کانگریس کے جے پرکاش کا مقابلہ بی جے پی کے پروین کھڈیلوال سے ہے۔ جے پرکاش کانگریس کے پرانے رہنما ہیں اور ان کی نئے طبقہ میں ایک اچھی پکڑ ہے اور وہ دو مرتبہ رکن پارلیمنٹ رہے ہیں جبکہ ان کے حریف بی جے پی کے پروین کھنڈیلوال بی جے پی کے رہنما ضرور ہیں لیکن ان کو بی جے پی کے ہرش وردھن اور وجیندر گپتا کی اس طرح کی حمایت نہیں مل رہی جیسا ملنی چاہئے۔ ویسے بھی اس پارلیمانی حلقہ میں ۱۳ فیصد سے تھوڑا زیادہ مسلم ووٹر ہیں اور 16 فیصد دلت ووٹر ہیں اس میں اگر 17 فیصد بنئے ووٹر میں تقسیم ہو جاتی ہے تو جے پرکاش کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے۔
شمال مشرقی میں جہاں بی جے پی نے منوج تیواری کو تیسری مرتبہ امیدوار بنایا ہے وہ سال ۲۱۰۴ اور سال ۲۰۱۹ میں اس حلقہ سے جیت چکے ہیں اور ان کا مقابلہ کانگریس کے نوجوان تیز ترار رہنما کنہیا کمار سے ہے۔ اس حلقہ میں میں سب سے زیادہ ۲۰ فیصد مسلم رائے دہندگان ہیں جبکہ 16 فیصد دلت ووٹر ہیں جس کی وجہ سے کنہیا کمار کے حق میں ایک بڑھت موجود ہے جبکہ اس علاقہ میں رام مندر کی تعمیر کا کافی اثر ہے جو منوج تیواری کے حق میں جاتا ہے۔ دہلی کے اس حلقہ میں ایک اسمبلی سیٹ یعنی براڑی ایسی ہے جہاں پر سب سے زیادہ بہار کے ووٹرس رہتے ہیں اور یہ ووٹرس بہت تیزی سے تقسیم ہو چکے ہیں جو کنہیا کمار کے حق میں جاتا ہے۔ عام آدمی پارٹی کے سابق الڈرمین اور مشرقی پارلیمانی حلقہ کے انچارج نیرج شرما کا کہنا ہے کہ کی ڈیموگرافی میں بہت تیزی سے تبدیلی آئی ہے اور دہلی میں اب 35 فیصد پروانچلی ہیں یعنی جس شہر میں آزادی کے بعد پنجابی اور بنیوں کا دبدبہ تھا وہاں اب پروانچلی لوگوں کو دبدبہ ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ منوج تیواری کا ٹکٹ بی جے پی نے اس لئے نہیں کاٹا تھا کیونکہ وہ اکیلے بڑے بھوجپوری رہنما ہیں۔
شمال مغربی دہلی میں کانگریس کے ادت راج کا مقابلہ بی جے پی کے ایم سی ڈی کے سابق رہنما یوگیندر چندولیا سے ہے۔ ادت راج جو سال 2014 میں بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ تھے اور سابق آئی آر ایس ہیں اب وہ کانگریس کے امیدوار ہیں ۔ اس حلقہ میں ۲۰ فیصد دلت ووٹرس ہیں جس کی وجہ سے یہ سیٹ محفوظ ہے اور اس حلقہ میں 10 فیصد مسلمان ہیں یہاں پر جہاں ادت راج کو پہلے امیدوار ہونے کی وجہ سے بڑھت ہے وہیں چندولیا کی عمران کے ساتھ ہے۔
مشرقی میں عام آدمی پارٹی یعنی عآپ کے امیدوار کلدیپ کمار جو ایک دلت ہیں ان کو اس طبقہ کا فائدہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اس حلقہ میں 15 فیصد دلت ووٹر ہیں جبکہ مسلم ووٹر 16 فیصد ہیں اور یہ کلدیپ کمار کو فائدہ پہنچاتا نظر آ رہا ہے۔ اس حلقہ پر رام مندر تعمیر کا واضح اثر نظر آتا ہے اس لئے بی جے پی کے امیدوار ہرش ملہوترا یہاں تگڑا مقابلہ کرتے نظر آ رہے ہیں۔
مغربی کی پارلیمانی سیٹ سے عآپ کے امیدوار مہابل مشرا جو پہلے کانگریس کے رکن اسمبلی اور پارلیمنٹ بھی رہے ہیں ان کا علاقہ پر بہت دبدبہ ہے۔ ان کا خو د کا تعلق بہار سے ہے اور اس حلقہ میں خاصے پروانچلی رہتے ہیں اور کیونکہ وہ اس حلقہ میں کافی مقبول ہیں اس لئے ان کو بڑھت نظر آتی ہے اور پرویش ورما کا ٹکٹ کاٹا جانا بھی ان کے حق میں جاتا ہے۔ یہاں پر ویسے دلت ووٹر ۱۲ فیصد ، مسلم ووٹر 6 فیصد ہیں اور کیونکہ یہاں میں سب سے زیادہ ۷ فیصد جاٹ ووٹرس ہیں اس لئے بی جے پی یہاں سے جاٹ امیدوار کو ہی کھڑا کرتی رہی ہے پہلے پرویش ورما جو کے سابق وزیر اعلی صاحب سنگھ ورما کے صاحبزادے ہیں اور دو مرتبہ یہاں سے نمائندگی کر چکے ہیں اب ان کا ٹکٹ کاٹ کر سابق میئر کمل جیت سہراوت کو امیدوار بنایا ہے اور وہ بھی جاٹ طبقہ سے تعلق رکھتی ہیں۔
جنوبی دہلی سے بی جے پی نے اپنے نظریاتی طور پر سب سے قریب رمیش بدھوڑی کا ٹکٹ کاٹ کر ان کی ہی برادری کے رام ویر سنگھ بدھوڑی کو امیدوار بنایا ہے۔ رام ویر سنگھ بدھوڑی جو کی تقریباً ہر سیاسی پارٹی میں رہ چکے ہیں اور ابھی دہلی اسمبلی میں بی جے پی کی جانب سے حزب اختلاف کے رہنما ہیں ان کا مقابلہ عآپ کے صحیح رام بدھوڑی سے ہے یعنی یہاں پر دو گوجروں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہے اور رمیش کو ٹکٹ نہ دینے سے بی جے پی کے کیڈر میں ایک مایوسی نظر آتی ہے جو صحیح رام کو فائدہ پہنچاتی نظر آ رہی ہے۔ اس حلقہ میں جہاں دلت ووٹر ۱۶ فیصد اور مسلم ووٹر ۷ فیصد ہیں وہیں گوجر ووٹر ۸ فیصد ہیں ۔ اس حلقہ میں بڑی تعداد میں غریب ووٹرس ہونے کی وجہ سے مقابلہ سخت ہو گیا ہے۔
نئی میں تیسرے یعنی بی ایس پی کے امیدوار آنند نے سب کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ یہاں اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ آنند نے حال ہی میں عام آدمی پارٹی کی حکومت سے وزارت چھوڑی تھی اور اس حلقہ سے بی ایس پی کی جانب سے لڑ رہے ہیں۔ عام آدمی پارٹی کے امیدوار سومناتھ بھارتی کا ماننا ہے کہ اس کا فائدہ عآپ کو ہوگا جبکہ بی جے پی کی امیدوار سشما سواراج کی بیٹی بانسوری سواراج کا ماننا ہے کہ ان کے کھڑ ے ہونے سے عآپ کو نقصان ہوگا۔ اس حلقہ میں جہاں 18 فیصد دلت ووٹرس ہیں وہیں سب سے زیادہ 8 فیصد مڈل کلاس ووٹرس ہیں اور ان دونوں کی موجودگی نے اس حلقہ کے انتخاب کو کانٹے کا بنا دیا ہے۔
میں جہاں رام مندر کی تعمیر کا واضح اثر نظر آتا ہے وہیں آئین کی حفاظت بھی ایک بڑا مدا ہے ۔ اگر مذہبی اور معاشی رجحان کو دیکھا جائے تو میں کانٹے کا مقابلہ ہے۔ اکثریتی طبقہ میں مایوسی اور سات میں سے 6 امیدواروں کا ٹکٹ کاٹا جانا انڈیا نامی اتحاد کو فائدہ پہنچاتا نظر آتا ہے۔ انڈیا نامی اتحاد کے ووٹرس کے لئے سب سے بڑا مسئلہ انتخابی نشان ہے اور اسی لئے تمام امیدوار اور رہنما اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ کس حلقہ میں ہاتھ پر مہر لگانی ہے اور کن حلقوں میں جھاڑو پر مہر لگانی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کے عوام 25 مئی کو کس اتحاد کو حق میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔