وزیر اعظم نریندر مودی کے اشتعال انگیز اور غیر ذمہ دارانہ بیانات پر الیکشن کمیشن کے کمزور رویے نے بی جے پی کے دیگر لیڈروں کو بھی بے لگام کر دیا ہے۔ اس سلسلے کا تازہ بیان آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما کا ہے، جنہوں نے بی جے پی کو 400 سے زیادہ سیٹیں دلانے کی اپیل اس بناء پر کی ہے تاکہ کاشی اور متھرا میں گیانواپی مسجد اور شاہی عیدگاہ مسجد کی جگہ پر مندر تعمیر ہو سکے۔
دلّی کے لکشمی نگر حلقہ انتخاب میں بی جے پی امیدوار ہرش ملہوترا کی انتخابی مہم میں حصہ لیتے ہوئے بسوا نے جو کچھ کہا وہ مذہب کے نام پر ووٹ مانگنے کا کھلا ثبوت ہے، جو انتخابی ضابطہ اخلاق کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی لیڈروں کے دلوں سے الیکشن کمیشن اور قانون کا خوف نکل چکا ہے۔ یہ لیڈر جان چکے ہیں کہ مودی اور امت شاہ کے مقرر کیے ہوئے الیکشن کمیشن میں اتنا حوصلہ نہیں کہ وہ بی جے پی کے کسی لیڈر کی اشتعال انگیزی کے خلاف کوئی سخت قدم اٹھا سکے۔ ہیمنت سرما تو پہلے ہی سے اشتعال انگیز اور منافرت پر مبنی بیانات کے لیے بدنام ہیں۔ مسلمانوں سے ان کی نفرت کا کوئی ذاتی سبب ہے یا پھر کانگریس چھوڑ کر بی جے پی میں آنے کے بعد وہ اپنے نمبر بڑھوانے کے لیے ایسے بیانات دیتے ہیں یہ تو وہی بہتر جانتے ہونگے، لیکن یہ بہرحال سچ ہے کہ ان کے بیانات اپنے اشتعال انگیز لہجے اور مسلمانوں کے خلاف نفرت سے بھرے ہونے کے سبب میڈیا کی سرخیوں میں رہتے ہیں۔
دلّی کے لکشمی نگر میں بسوا نے ووٹروں سے بی جے پی کو جتانے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ، ’’اگر بی جے پی چار سو کے پار جائے گی تو متھرا میں کرشن جنم بھومی پر مندر تعمیر کیا جائیگا اور کاشی میں گیانواپی مسجد کے مقام پر بابا وشو ناتھ کا مندر تعمیر ہوگا۔‘‘ سرما نے یہ بھی کہا کہ ”بی جے پی نے ایودھیا میں عالیشان مندر تعمیر کرنے کا اپنا وعدہ پورا کر دیا ہے، اس لیے اس مرتبہ بڑی جیت ہونی چاہیے۔“ سرما کا یہ بیان الیکشن کمیشن کی نظر سے گزرا یا نہیں، دلّی کے الیکشن کمیشن سے متعلق افسران نے اس بیان کی رپورٹ کمیشن کو دی یا نہیں، اپوزیشن پارٹیوں نے اس کی شکایت الیکشن کمیشن سے کی یا نہیں، یہ تو فی الحال واضح نہیں ہے، لیکن اگر کمیشن تک اس معاملے کی شکایت پہنچی بھی تو اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ وہ سرما کے خلاف کوئی سخت قدم اٹھانے کا حوصلہ دکھائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ الیکشن کمیشن اپنی خود مختاری کو اپنے سیاسی آقاؤں کے پاس گروی رکھ چکا ہے اور اس طرح کے بیانات اس کے لیے اب قابل اعتراض نہیں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اب الیکشن کھلے طور پر متھرا اور کاشی کے ایشوز پر لڑا جائیگا؟ کیا بی جے پی کی جیت اور چار سو سیٹوں کا حصول صرف اس مقصد کے تحت ہوگا کہ ملک کے بنیادی عوامی مسائل کو نظر انداز کر کے ہندوتوا کے ایجنڈے کو مزید شدّت سے آگے بڑھایا جائے اور اس طرح سیکولر اقدار اور آئین کی دھجّیاں اڑا دی جائیں؟ کیا عوام کو نفرت کا زہر تقسیم کرنے کی اجازت کمیشن بالواسطہ طور پر اسی طرح بی جے پی قیادت کو دیتا رہیگا؟
بی جے پی قیادت کے قول و فعل میں کس قدر تضاد ہے اس کا اندازہ وزیر اعظم مودی کے مہاراشٹر کی ریلیوں میں دیے گئے ایک بیان اور دوسری طرف دلّی میں دیئے گئے آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت سرما کے مذکورہ بیان سے لگایا جا سکتا ہے۔ یہاں مودی کے حال ہی میں دیے گئے متنازعہ بیانات کو دوہرانے کی ضرورت نہیں۔ البتہ مہاراشٹر کی ریلیوں میں انہوں نے جو کچھ کہا وہ حقیقت کے برعکس ہے اور اس کا ثبوت سرما کا دلّی میں دیا گیا مذکورہ بیان ہے۔ مہاراشٹر کی کئی ریلیوں سے خطاب کرتے ہوئے مودی نے دعویٰ کیا کہ وہ ”کانگریس اور ’انڈیا‘ اتحاد کی دیگر پارٹیوں کی مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی سازش کا پردہ فاش کر رہے ہیں اور ان کے نزدیک ملک کی سالمیت اور اتحاد زیادہ اہم ہے۔“ سوال یہ ہے کہ کیا سرما کا بیان ملک کی سالمیت اور اتحاد کو مضبوط کریگا یا اسے پارہ پارہ کریگا؟ اس لیے کہ اگر ووٹروں سے اس بناء پر ووٹ مانگے جائینگے کہ اگر بی جے پی جیت گئی تو وہ کاشی اور متھرا میں مسجدوں کی جگہ پر مندر تعمیر کریگی تو مسلمان تو اس وعدے پر ظاہر ہے بی جے پی کی حمایت نہیں کریگا۔ کوئی انتہائی بے غیرت مسلمان ہی یہ کر سکتا ہے کہ اپنی مساجد کے انہدام کی قیمت پر بی جے پی کی حمایت کرے۔ ایسا ہوا تو مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان اتحاد بڑھیگا،یا اسے نقصان پہنچے گا؟
لیکن بی جے پی کا یہ مقصد بھی نہیں ہے۔ بی جے پی ملک میں جس اتحاد کی پیروکار ہے اس کے مطابق مسلمانوں کو الگ تھلگ کر کے ہندوؤں اور ان میں بھی اعلیٰ ذات ہندوؤں کو خفیہ طور پر متحد کرنا ہی بڑا مقصد ہے۔ اس بات کے حق میں سیکڑوں ثبوت پیش کیے جا سکتے ہیں۔
وزیر اعظم کا یہ کہنا بھی محض فریب ہے کہ وہ ملک کے استحکام کے حق میں ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ بی جے پی اور سنگھ جس راہ پر چل رہے ہیں وہ کسی بھی ملک کو انتشار و خانہ جنگی کی سمت لے جاتی ہے۔ دنیا کی تاریخ تو کم از کم یہی بتاتی ہے۔ طاقت کے بل پر کوئی حکمراں اپنے ملک کی کسی چھوٹی سی اقلیت کو بھی طویل عرصے تک دبا کر نہیں رکھ سکتا اور حکمرانوں کی اس طرح کی منافرت پر مبنی پالیسیاں کسی نہ کسی مرحلے پر ملک کو ہی نقصان پہچانے کی سبب بنتی ہیں۔ مسلمانوں پر ہجومی تشدد، گئو کشی کے بہانے لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنانا، ایودھیا میں مندر کی تعمیر کو سیاسی ایجنڈہ بنانا اور اس کے برعکس اسلامی مدارس کے خلاف زہر افشانی کرنا اور انہیں دہشت گردی سے جوڑنا، دراصل منافرت کی کھیتی کرنے کے ہی مترادف ہے اور اس کھیتی کی فصل کیا ہوگی یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ وزیر اعظم دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ملک کے اتحاد اور سالمیت کے لیے کام کر رہے ہیں لیکن بے گناہ مسلمانوں کے گھروں پر بلدوزر چلانے، انہیں دہشت گردی کے جھوٹے الزامات میں جیلوں میں ڈالنے، ان کی مساجد کے سامنے شرپسند عناصر کی اشتعال انگیزی اور مساجد پر بے سبب حملہ کرنے پر ان کی انتظامیہ اور پولیس ہی کی نہیں بلکہ خود وزیر اعظم، ان کی پارٹی اور اعلیٰ حکام تک کی خاموشی کیا ثابت کرتی ہے؟ کیا اس طرح ملک کو متحد کیا جا سکتا ہے؟
بی جے پی کے رہنما اور آسام کے وزیر اعلیٰ کھلے عام کاشی اور متھرا میں مساجد منہدم کر کے مندر بنانے کے لیے ووٹ مانگتے ہیں۔ مندر تعمیر کو اپنی پارٹی کے سیاسی ایجنڈے کا حصہ ثابت کرتے ہیں لیکن مودی ایسے تمام معاملوں پر خاموش رہ کر اپوزیشن پارٹیوں پر ان تمام باتوں کے لیے طعنہ زن ہوتے ہیں کہ جو خود ان کی پارٹی کھلے عام کر رہی ہے۔ جس بے شرمی سے اس الیکشن کو فرقہ وارانہ ایجنڈے پر لانے کی جی توڑ کوشش بی جے پی کر رہی ہے اس پر پارٹی اعلیٰ کمان حتیٰ کہ وزیر اعظم تک کسی طرح کی شرمندگی کا اظہار تو درکنار، خود وہی راہ اختیار کر لیتے ہیں اور یہ صرف اس لیے کہ بغیر کسی مثبت کارکردگی کے الیکشن کو منافرتی ایجنڈے کے سہارے جیتا جا سکے۔ ان تمام حالات میں الیکشن کمیشن کا رویہ بھی جمہوریت کے قتل کی خاموش رضامندی کے مترادف ہے اور اس رویے نے ہی بی جے پی قیادت کو اشتعال انگیزی کی کھلی چھوٹ دے دی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اشتعال انگیزی کا یہ سلسلہ کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی جا رہا ہے اور اس بات کا خطرہ ہے کہ ہر انتخابی مرحلے کے بعد اس میں اضافہ ہوگا، جس کی ذمہ داری الیکشن کمیشن پر زیادہ ہوگی۔