کورونا کے دور میں ہندوستان کی دو لڑکیوں کی مبینہ طور پر ’کووی شیلڈ‘ ویکسین لینے کے بعد ہوئی موت اب قانونی شکل اختیار کرنے جا رہی ہے۔ دونوں لڑکیوں کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ وہ سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ان کے والدین کا کہنا ہے کہ برطانوی دوا ساز کمپنی ’ایسٹرازینیکا‘ نے عدالت میں اعتراف کیا ہے کہ اس کی خوراک غیر معمولی معاملات میں خطرناک ضمنی اثرات کا باعث بن سکتی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ ’ایسٹرازینیکا‘ اور ’آکسفورڈ‘ یونیورسٹی نے کووی شیلڈ کا فارمولا تیار کیا تھا اور سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا نے بڑے پیمانے پر ہندوستان میں اس کا پروڈکشن کیا تھا۔
واضح رہے کہ کورونا کے دور میں ریتیکا سری اومٹری اور کرونیا نامی دو لڑکیوں کی موت ہو گئی تھی۔ دونوں لڑکیوں نے کووی شیلڈ ویکسین لگوائی تھی۔ کرونیا کی موت جولائی 2021 میں ہوئی تھی۔ اس کے والد وینوگوپالن گووندن کا کہنا تھا کہ ان کی بیٹی کی موت کوویڈ ویکسین لگوانے کے ایک ماہ بعد ہوئی تھی۔ اسی طرح کی دیگر کچھ معاملات کے سامنے آنے کے بعد ان کی جانچ کے لیے حکومت کی جانب سے ایک قومی تحقیقاتی کمیٹی بنائی گئی تھی جس نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ ویکسین لینے سے موت کے الزامات میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ کمیٹی کے مطابق اس بات کے خاطر خواہ شواہد نہیں ملے کہ لڑکی کی موت ویکسینیشن کی وجہ سے ہوئی ہے۔ اسی طرح ریتیکا سری اومٹری کی بھی ویکسین لگوانے کے دو ہفتے بعد موت ہو گئی تھی۔
اس سے قبل کچھ والدین نے اپنے بچوں کی موت کا ذمہ دار ویکسین کو قرار دیا تھا اور عدالت سے رجوع کیا تھا۔ یہ درخواستیں حکومت اور ان اہلکاروں کے خلاف دائر کی گئی تھیں جنہوں نے ویکسین کی منظوری دی تھی۔ ان کیسز میں سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کو فریق نہیں بنایا گیا تھا۔ برطانوی دواساز کمپنی ایسٹرازینیکا کی جانب سے برطانوی عدالت میں اپنا جواب داخل کرنے کے بعد یہ سارا تنازعہ سامنے آیا ہے۔ دوا ساز کمپنی کو برطانیہ میں عدالتی مقدمات کا سامنا ہے۔ کمپنی کی جانب سے عدالت میں جمع کرائی گئی دستاویزات میں اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ یہ غیر معمولی معاملات میں ’تھرومبوسس تھرومبوسائٹوپینیا سنڈروم‘ یعنی ٹی ٹی ایس کا باعث بن سکتا ہے۔ اس بیماری کی وجہ سے جسم میں خون کے لوتھڑے بن جاتے ہیں اور پلیٹ لیٹس کی تعداد کم ہو جاتی ہے۔ کمپنی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ یہ بہت کم معاملات میں ہو سکتا ہے۔
آکسفورڈ-ایسٹرازینیکا کووڈ ویکسین کو دنیا بھر میں ’کووی شیلڈ‘ اور ’ویکسزیوریا‘ برانڈ نام سے فروخت کیا گیا تھا۔ برطانیہ میں جیمی اسکاٹ نامی ایک شخص نے کپمنی کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا۔ انہیں اپریل 2021 میں ایسٹرازینیکا ویکسین لینے کے بعد ’برین انجری‘ (دماغی چوٹ) کی شکایت ہوئی تھی۔ حفاظتی خدشات کی وجہ سے ایسٹرازینیکا-آکسفورڈ ویکسین اب برطانیہ میں استعمال نہیں کی جاتی ہے۔ جبکہ انڈیپنڈینٹ اسٹڈی میں کووڈ-19 سے نمٹنے میں اس کی اثرانگیزی کا اعتراف کیا گیا ہے۔ اس میں غیر معمولی معاملات میں ریگولیٹری جانچ پڑتال اور قانونی کارروائی کا بھی مشورہ دیا گیا ہے۔