لوک سبھا انتخابات کے دو مرحلوں کے لئے ووٹنگ ہو گئی ہے اور 7 مئی کو تیسرے مرحلے کے لئے رائے دہندگان نے اپنی رائے کا اظہار کرنا ہے۔ انتخابات کے نتائج 4 جون کو آنے ہیں لیکن سورت پارلیمانی حلقہ سے بی جے پی کے امیدوار ان خوش قسمت امیدواروں میں سے ہیں جن کو نتائج کے لئے 4 جون کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا بلکہ ان کو انتخابی عہدیدار نے ان کی کامیابی کا سرٹیفکیٹ دے دیا ہے۔ اس کے بعد کھجوراہو سے سماجوادی پارٹی کے امیدوار کے کاغذات نامزدگی تکنیکی بنیاد پر مسترد کر دئے گئے اور اب ایسی ہی خبر اندور سے آئی ہے کہ کانگریس کے امیدوار نے اپنے کاغذات نامزدگی واپس لے لئے ہیں اور وہ بی جے پی میں شامل ہو گئے ہیں۔
ظاہر ہے چاہے وہ گجرات کی سورت سیٹ ہو یا مدھیہ پردیش میں اندور کی سیٹ ہو، ان دونوں نشستوں پر نہ صرف یہ کہ بی جے پی مضبوط تھی بلکہ اس کی جیت یقینی بتائی جا رہی تھی۔ جب ان سیٹوں کو بی جے پی کے لئے مضبوط سمجھا جا رہا تھا اور اس کی جیت یقینی تھی تو پھر بی جے پی نے ایسا کیوں کیا؟ کیا وہ انتخابات کے بیچ میں یہ پیغام دینا چاہتی تھی کہ انڈیا نامی اتحاد کے امیدواروں کو جیتنے کی امید نہیں ہے اس لئے وہ بی جے پی سے ہاتھ ملا رہے ہیں اور بی جے پی اپنے مخالفین کو نفسیاتی طور پر جھٹکا دینا چاہتی ہے۔ انتخابات کے دوران سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے اوپر توڑ مروڑ کر الزام تراشی کرتی ہیں لیکن یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ انتخابات کے بیچ میں تین نشستوں پر حزب اختلاف کے اتحاد کے امیدواروں کے ساتھ ایسا ہوا ہے اور اس نے کئی سوال کھڑے کر دئے ہیں۔
سورت میں وہ نوجوان رائے دہندگان جنہوں نے پہلی مرتبہ اپنی رائے کا اظہار کرنا تھا ان کو اب گجرات اسمبلی کے انتخابات یعنی سال 2027 تک انتظار کرنا پڑے گا۔ ان کے ساتھ بھی زیادتی ہوئی ہے جو رائے دہندگان نوٹا یعنی اوپر میں سے کوئی نہیں (نن آف دی اباؤ) پر اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہتے تھے۔ یہ صورتحال تو سورت کی ہے لیکن اندور اور کھجوراہو میں بھی رائے دہندگان کی نہ صرف حوصلہ شکنی ہوگی بلکہ وہ جمہوریت کے اس تیوہار کے حصے دار بھی نہیں بن پائیں گے۔ ابھی یہ دوسرے مرحلے کی ووٹنگ سے پہلے کی حالت ہے سات مرحلوں کے مکمل ہونے کے بعد کیا صورتحال سامنے آتی ہے وہ دیکھنی ہوگی۔
دراصل یہ سفر بالخصوص کانگریس کے رہنماؤ کے بی جے پی میں شامل کئے جانے سے شروع ہوا تھا اور یہ سفر چنڈی گڑھ میئر کے انتخاب سے آگے بڑھتے ہوئے گجرات کے سورت تک پہنچ گیا۔ لوگ تو دہلی کانگریس میں ہونے والے ڈیولپمنٹ کو بھی اسی طرح دیکھ رہے ہیں اور لوگ سابق کانگریس صدر اروندر سنگھ لولی کے استعفے کو بھی اسی طرح دیکھ رہے ہیں کیونکہ وہ پہلے بھی عین انتخابات کے وقت بی جے پی میں شامل ہوئے تھے اور اب جب دہلی میں انتخابات کے لئے ایک مہینے سے کم وقفہ رہ گیا ہے اور ان کے اس عمل کا سیدھا فائدہ بی جے پی کو ہوتا نظر آ رہا ہے۔ بہرحال یہ لوگوں کی رائے ہے لیکن بی جے پی جیتنے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔
اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے کچھ اصلاحات کی ضرورت ہے جس سے نہ تو سیاسی جماعتیں اس صورتحال کو اپنے حق میں استعمال کر سکیں اور نہ ہی پارٹی کے ورکر پارٹی کا بلیک میلنگ کے لئے استعمال کر سکیں۔ ناچیز کی رائے ہے کہ انتخابات کے پانچویں سال میں کسی رکن کو وفاداری تبدیل کرنے کی اجازت نہ دی جائے اور اس کو انتخابات کے بعد ہی اپنی پارٹی چھوڑ کر کسی دوسری پارٹی میں شمولیت کی اجازت دی جائے۔ صرف وہ ہی پارٹی سے انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے جو ایک سال سے پارٹی کا رکن ہو۔ کسی کو کاغذات نامزدگی واپس لینے کی اجازت نہ ہو اور کاغذوں میں کوئی بھی کمی ہو اس کے لئے امیدوار نہیں بلکہ انتخابی افسران ذمہ دار ہوں۔
ناچیز کی رائے ہے کہ کسی بھی صورت میں نہ تو رائے دہندگان کو ان کے رائے دینے کے حق سے محروم کیا جائے اور نہ ہی بر سر اقتدار جماعت کو یہ موقع دیا جائے کہ وہ انتخابی پچ کو اپنے لئے استعمال کر ے یعنی امیدوار اور سیاسی جماعتوں کو ’لیول پلیئنگ فیلڈ‘ فراہم کیا جائے۔ کسی کو بھی اس بات کی اجازت نہ دی جائے کہ وہ اقتدار میں آنے کے لئے وفاداریاں تبدیل کر لے یا اس کی وفاداریاں تبدیل کرا لی جائیں۔ موقع پرست سیاست کی جگہ نظریاتی سیاست کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔