مشہور و معروف صحافی ظفر آغا آج سینکڑوں غمزدہ افراد کی موجودگی میں دہلی کے پریس انکلیو، ساکیت واقع حوض رانی قبرستان میں سپردِ خاک ہو گئے۔ آج صبح تقریباً 5.30 بجے دہلی ایمس میں ان کا انتقال ہوا جس کے بعد ظفر آغا کا جسد خاکی شاہ مرداں (بی کے دَت کالونی)، جور باغ لے جایا گیا۔ نمازِ جمعہ کے بعد نمازِ جناہ پڑھائی گئی اور پھر انھیں تدفین کے لیے پریس انکلیو، ساکیت سے متصل حوض رانی قبرستان لے جایا گیا۔
![ظفر آغا نم آنکھوں کے درمیان سپردِ خاک، راہل گاندھی سمیت کئی اہم شخصیتوں کا اظہارِ تعزیت](https://media.assettype.com/qaumiawaz%2F2024-03%2Ffe4cc6d5-4d73-4c4e-8692-affd3f7ff3ed%2FWhatsApp_Image_2024_03_22_at_4_38_20_PM.jpeg?auto=format%2Ccompress)
تقریباً 4 بجے ظفر آغا کے جسد خاکی کو سپردِ خاک کیا گیا اور وہاں موجود کئی مشہور و معزز شخصیات نے انھیں مٹی دی۔ ظفر آغا کو آخری وداعی دینے قبرستان پہنچے لوگوں میں راجدیپ سردیسائی، پنکج پچوری، سعید نقوی، گوہر رضا، سہیل ہاشمی، ایم کے وینو، امت بروا، رام رحمان، سمن دوبے، قربان علی، جاوید انصاری، ادیتی نگم، شبنم ہاشمی، رینو متل، اپوروانند، کنشک سنگھ، مرلی کرشنن، شبھرا گپتا، مدھو سودن سرینواس، نتیا راماکرشنن وغیرہ شامل ہیں۔ اس موقع پر سبھی نے وہاں موجود ظفر آغا کے بھائی قمر آغا اور بیٹے مونس آغا سے تعزیت کا اظہارِ کیا اور صبر جمیل کے لیے دعا بھی دی۔
سینئر صحافی نمرتا جوشی نے ظفر آغا کی رحلت پر اظہارِ غم کرتے ہوئے لکھا ہے ’’صحافتی دنیا کی مزید ایک معتبر شخصیت کا انتقال۔ کورونا وبا کے دوران ان کے ساتھ مختصر وقت گزارنے کا موقع ملا۔ اس دوران ایک مکمل، سمجھدار، پیشہ ور اور مخلص انسان سے میری ملاقات ہوئی۔ ظفر آغا صاحب کے لیے میری دعائیں۔‘‘
اردو ادب کی معزز شخصیت ڈاکٹر مشتاق صدف نے بھی ظفر آغا کے انتقال پر اظہارِ تعزیت پیش کیا ہے۔ تاجک نیشنل یونیورسٹی، دوشنبہ، تاجکستان میں وزیٹنگ پروفیسر ڈاکٹر مشتاق صدف نے اپنے پیغام میں لکھا ہے کہ ’’ظفر آغا اردو صحافت میں قطب مینار کی حیثیت رکھتے تھے۔ انہوں نے غیر جانبدارانہ اور سیکولر صحافت کی ہمیشہ پیروی کی۔ ان کی بے شمار اعلیٰ و ارفع صحافتی خدمات ہیں۔ لہذا ان پر یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی کی جانی چاہیے۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’ظفر آغا ایک شخص ہی نہیں بلکہ ایک ادارہ تھے۔ انہوں نے نئی اور پرانی نسل کی ان گنت صحافیوں کی آبیاری بھی کی اور تربیت بھی۔ ان کی رحلت سے میدان صحافت میں سناٹا چھا گیا ہے۔ خدا ان کی مغفرت فرمائے، آمین۔‘‘