ظفر میرا بہت پرانا ساتھی اور دوست تھا۔ 1980 کی دہائی کے اوائل میں بہادر شاہ ظفر مارگ پر واقع لنک ہاؤس میں ہفتہ وار لنک نیوز میگزین میں جب ظفر ڈیسک ہینڈ کے طور پر آیا تو وہ ایک ناپختہ نوجوان تھا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں پہلی بار دفتر میں اس سے ملا تو مذاقاً کہا کہ ’’اب جبکہ ہمارے درمیان ظفر مارگ کا ماسٹر ہے، تو پھر اب ہم ہمیشہ سینٹرل ڈیوائیڈر پر بیٹھ کر شطرنج کھیل سکتے ہیں!‘‘ ان دنوں ہم اکثر اپنے دفتر کے سامنے والی سڑک کے سینٹرل ڈیوائیڈر پر بیٹھ کر شطرنج کھیلا کرتےھے۔
اس کے بعد وہ میرا ایک بہت عزیز اور قریبی دوست بن گیا۔ حالانکہ وہ ہمیشہ ایک جونیئر ساتھی کے طور پر ہی رہا۔ بعد میں جب میں وجئے بلڈنگ کے آبزرور آف بزنس اینڈ پولیٹکس میں چلا گیا تو میں نے اسے وہاں بلا لیا، جہاں ہم ساتھ رہے۔ درمیان میں اس نے کچھ عرصہ کے لیے انڈیا ٹوڈے میں جانے کا فیصلہ کیا اور اس کے بعد کئی دوسرے پبلیکیشن میں بھی گیا۔ کچھ عرصہ تک جہاں ہم رہتے تھے وہاں سے قریب ہی وہ اپنے بڑے بھائی اور کچھ قریبی دوستوں کے ساتھ بھی رہا۔ ان دنوں ہماری اکثر شامیں اردو شاعری کا ذوق رکھنے والے دوستوں کے ساتھ گزرتی تھی۔
وہ ایک بہترین، خوش ذائقہ، شائستہ اور قابل احترام شخص تھا۔ وہ بہت بحثیں کرتا تھا لیکن شاذ و نادر ہی ایسا ہوتا تھا کہ وہ بحث کے دوران مشتعل ہوا ہو۔ وہ اپنے شیعہ مسلم ہونے اور اس کے ورثے پر فخر کرتا تھا مگر کبھی سخت گیر نہیں رہا۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے مشہور الہ آباد کے نہروین سماجی ماحول میں پروان چڑھنے کے بعد حالیہ برسوں میں اس نے خود کو کھو دیا۔ ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت نے اسے بہت مایوس اور دلبرداشتہ بنا دیا تھا۔ ایک بار جب میں نے اس سے کہا کہ یہ دور بھی ہماری آنکھوں کے سامنے سے گزر جائے گا تو اس نے دھیرے سے کہا کہ ’’لیکن اس سے پہلے میں گزر جاؤں گا۔‘‘