
اکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کو جیل میں بند ہوئے ڈیڑھ سال سے زیادہ کا وقت ہوچکا ہے، لیکن گزشتہ کچھ ہفتوں سے ان کے بارے میں ایسی خاموشی چھائی ہوئی ہے کہ خود ان کی فیملی گھبرائی ہوئی ہے۔ ٹی وی چینلوں کو ان کا نام اورتصاویردکھانے پرپابندی لگائی جاچکی ہے۔ انٹرنیٹ پربھی عمران خان کی حالیہ کوئی جھلک نہیں ہے۔ اسی ماحول میں ان کے بیٹوں نے پہلی بارکھل کرکہا ہے کہ انہیں ڈرہے کہ ان سے بہت کچھ چھپایا جا رہا ہے۔
عمران خان کے بیٹے قاسم خان، جو لندن میں رہتے ہیں، کہتے ہیں کہ انہوں نے آخری باراپنے والد کونومبر2022 میں دیکھا تھا۔ اس وقت عمران خان پرحملہ ہوا تھا۔ عمران خان کا خاندان انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں سے بھی مدد مانگ رہا ہے اورمطالبہ کررہا ہے کہ عدالت کے حکم کے مطابق دورے فوری طورپردوبارہ شروع کئے جائیں، ایک ڈاکٹرکوصحت کا معائنہ کرنے کی اجازت دی جائے اورعمران خان کی حالت کے بارے میں باضابطہ اپ ڈیٹ فراہم کیا جائے۔
عمران خان کہاں ہیں؟
عمران خان کے بیٹے قاسم خان نے رائٹرس سے کہا کہ فیملی کوتین ہفتوں سے کوئی بھی ایسا ثبوت نہیں ملا، جس سے یقین ہوسکے کہ وہ زندہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ جاننا کہ آپ کے والد محفوظ ہیں، زخمی ہیں یا زندہ بھی ہیں یا نہیں۔ یہ ایک طرح کی ذہنی اذیت ہے۔ قاسم خان کے مطابق، عدالت نے ہفتے میں ایک بار ملنے کا حکم دیا تھا، لیکن اتنظامیہ مسلسل ملاقات کو ملتوی کررہی ہے۔ ان کے نجی ڈاکٹرکوبھی ایک سال سے ملاقات کی اجازت نہیں ملی۔ جیل انتظامیہ نے دعویٰ کیا ہے کہ عمران خان ٹھیک ہیں، لیکن یہ دعویٰ صرف نامعلوم عہدیداروں کی طرف سے کیا جا رہا ہے۔ کوئی سرکاری یا بصری ثبوت نہیں۔
ٹی وی پرپابندی، انٹرنیٹ سے تصاویرغائب
خاندان، خاص طورپرقاسم اس بات سے زیادہ خوفزدہ ہیں کہ عمران خان کو پوری طرح عوامی جگہ (پبلک اسپیس) سے غائب کردیا گیا ہے۔ ٹی وی چینلوں پرنام اورتصاویردکھانے پرروک لگا دی گئی ہے۔ پاکستان کے کئی چینلوں کوکہا گیا ہے کہ عمران خان کا نام نہ لیں۔ ان کی تصاویریا ویڈیونہ چلائیں۔ کوئی بیان یا ردعمل نہ دکھائیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ عمران خان کی آخری کوئی بھی صاف تصویرایک پرانی، دھندلی کورٹ فوٹوہے، جوانٹرنیٹ پرگھوم رہی ہے۔ خاندان کا الزام ہے کہ یہ آئیسولیشن جان بوجھ کرکیا جا رہا ہے۔ وہ لوگوں کے سب سے پسندیدہ لیڈرہیں اورحکومت جانتی ہے کہ انہیں جمہوری طریقے سے ہرایا نہیں جاسکتا۔
جیل میں دو سال سے کیوں بند ہیں عمران خان؟
عمران خان اگست 2023 سے جیل میں بند ہیں۔ انہیں توشہ خانہ کیس، خفیہ کیبل لیک کیس (10 سال قید) اورالقادرٹرسٹ کیس (14 سال قید) سمیت متعدد مقدمات میں سزا سنائی گئی ہے۔ عمران خان اوران کی سیاسی پارٹی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا دعویٰ ہے کہ یہ تمام مقدمات انہیں سیاست اورانتخابات سے دوررکھنے کے لیے سیاسی انتقام کے طورپرلگائے گئے ہیں۔





