
’’دیدی مجھے معاف کرنا…‘‘ میں تمہاری امیدوں پر پورا نہیں اتر پایا۔ ممی… میرے بچوں کا خیال رکھنا۔ میں گھر نہیں آؤں گا… الیکشن کے اس کام نے مجھے بدل کر رکھ دیا… کاش! میں اس سے وابستہ نہ ہوتا… ماں، میں جینا چاہتا ہوں… میری چار بیٹیاں ہیں ان کا خیال رکھنا…‘‘ یہ اتر پردیش کے مرادآباد ضلع میں بی ایل او رہے سرویش سنگھ کے آخری الفاظ ہیں، جنہوں نے ایس آئی آر کے ورک پریشر میں آکر خودکشی کر لی۔ مرنے سے پہلے انہوں نے ایک ویڈیو بنایا جو اب سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہو رہا ہے۔43 سال کے سرویش سنگھ دلت سماج سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے 30 نومبر کو خودکشی کر لی۔ وائرل ویڈیو میں سرویش الزام لگاتے ہیں کہ ایس آئی آر کی وجہ سے وہ ایسا قدم اٹھانے پر مجبور ہوئے۔
ورک پریشر کی وجہ سے خودکشی
سرویش ایک اسکول میں استاد تھے۔ انہیں الیکشن کمیشن کی جانب سے اضافی ڈیوٹی پر تعینات کیا گیا تھا۔ خاندان نے الزام لگایا ہے کہ افسران ان پر مسلسل کام کا دباؤ ڈال رہے تھے۔ اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ وہ بغیر رکے مسلسل کام کر رہے تھے، جس کی وجہ سے ان پر ذہنی اور جسمانی دباؤ بڑھتا گیا اور یہی دباؤ ان کی موت کی وجہ بنا۔
ملک میں اب تک 10 سے زیادہ بی ایل او خودکشی کر چکے ہیں
بتایا جاتا ہے کہ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے جب ایس آئی آر ورک پریشر کی وجہ سے کسی بی ایل او نے خودکشی کی ہو۔ اب تک ملک کی مختلف ریاستوں میں 10 سے زیادہ بی ایل او اپنی جان دے چکے ہیں۔ کسی کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی تو کوئی ڈپریشن کی وجہ سے دنیا سے چلا گیا۔ کئی بی ایل او نے موت سے پہلے ایس آئی آر کے ورک پریشر کو اپنی خودکشی کی وجہ قرار دیا ہے۔
مرادآباد کے سرویش سنگھ کی ٹوٹی ہوئی آواز پورے سرکاری نظام کے لیے الارم ہے
جتنا کام ضروری ہے، اتنا ہی آرام بھی ضروری ہے۔ جب ورک پریشر کی وجہ سے سسٹم کے لوگوں کی سانسیں ٹوٹ رہی ہوں تو حکومت کو سوچنا چاہئے کہ کہیں کوئی بڑی گڑبڑی تو نہیں ہو رہی۔ آخر بی ایل او بھی انسان ہیں، مشین نہیں۔ حکومت کو ان کیلئے فوری قدم اٹھانے چاہیے۔







