افغانستان میں گزشتہ دنوں آئے زلزلہ ہر طرف تباہی کا نشان چھوڑ دیا ہے۔ ہزاروں زندگیاں ختم ہو گئی ہیں اور بڑی تعداد میں زخمی افراد اب بھی مختلف اسپتالوں میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اس زلزلہ میں ہوئی ہلاکتوں میں خواتین کی بڑی تعداد دیکھنے کو مل رہی ہے۔ کچھ میڈیا رپورٹس میں بتایا جا رہا ہے کہ کئی خواتین تو ایسی ہیں، جنھیں بچایا جا سکتا تھا، لیکن افغانستان کی قدامت پسندانہ روایات نے ان کی زندگیاں ختم کر دیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ جنگ ہو یا قدرتی آفت، ہمیشہ خواتین کو مردوں کے مقابلے زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ یہ جذباتی بیان نہیں ہے، بلکہ اس بارے میں اقوام متحدہ ڈیولپمنٹ پروگرام (یو این ڈی پی) کی تحقیق پہلے ہی سامنے آ چکی ہے۔ یو این ڈی پی کے مطابق جب کوئی آفت آتی ہے تو خواتین اور بچوں کی ہلاکت کا امکان مردوں کے مقابلے 14 گنا زیادہ ہوتا ہے۔ اس حقیقت کا سامنا خواتین کو افغانستان میں آئے زلزلہ کے دوران بھی کرنا پڑا۔
6.0 شدت والے اس خوفناک زلزلہ میں اب تک 2200 سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں اور 3000 سے زائد زخمی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ مہلوکین میں ایسی خواتین کی ایک بڑی تعداد ہے جن کی جان بچ سکتی تھی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق کچھ خواتین زندہ تھیں اور ملبہ کے نیچے دبی وہ مدد کے لیے چیخ رہی تھیں۔ کچھ خواتین کے ہاتھ ہلتے دکھائی دے رہے تھے اور کچھ کی آنکھیں دکھائی دے رہی تھیں جو ریسکیو مہم چلا رہے لوگوں سے زندگی کی بھیک مانگ رہی تھیں۔ اس وقت افغانستان کی قدامت پسندانہ روایات نے راحتی مہم چلا رہے لوگوں کو روک دیا، کیونکہ وہ ان خواتین کو ہاتھ نہیں لگا سکتے تھے۔
دراصل افغان سماج میں طویل مدت سے خواتین کو لے کر سخت پابندیاں ہیں۔ کسی غیر مرد کے ذریعہ انھیں چھونا یا ہاتھ لگانا گناہ تصور کیا جاتا ہے۔ زلزلہ کے بعد جب راحت رسانی میں مصروف اہلکار جائے وقوع پر پہنچے تو انھیں خواتین کو ملبہ سے باہر نکالنے سے پہلے اس کے رشتہ دار یا سماج کی اجازت لینی پڑی۔ اس میں ہوئی تاخیر نے کئی خواتین کی زندگی ختم کر دی۔ یعنی زندہ عورتیں مدد کا انتظار کرتی رہیں، اور جب تک مدد ملتی، ان کی سانسیں رک چکی تھیں۔