صحت کی خدمات تک رسائی معاملہ پر دنیا پہلے ہی 2 حصوں میں منقسم ہے۔ ایسے میں ادویات کی بڑھتی قیمتیں حالات کو مزید مشکل بنا رہی ہیں۔ ایک عالمی تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ کمزور اور متوسط آمدنی والے ممالک کو امیر ممالک کے مقابلہ میں مساوی ادویات کے لیے زیادہ قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ اس کا براہ راست اثر غریب ممالک کی گھریلو معیشت پر پڑ رہا ہے، کیونکہ یہاں ادویات کا بوجھ براہ راست لوگوں کی جیبوں پر آتا ہے۔ یہ تحقیق امریکہ کی براؤن یونیورسٹی اور لندن اسکول آف اکنامکس کے محققین نے کیا ہے اور اس کے نتیجے جرنل آف دی امریکن میڈیکل ایسو سی ایشن (جے اے ایم اے) ہیلتھ فورم میں شائع ہوئے ہیں۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ اگرچہ امیر ممالک میں ادویات کی اسٹیکر قیمت زیادہ لگتی ہو لیکن وہاں کی آمدنی اور حکومت کے سبسڈی نظام کو دیکھتے ہوئے یہ نسبتاً سستی پڑتی ہے۔ دوسری جانب غریب اور متوسط آمدنی والے ممالک میں قیمتیں کاغذوں پر کم ضرور نظر آتی ہیں، لیکن لوگوں کی کم آمدنی اور سرکاری سبسڈی کی کمی کے باعث یہ دوائیں اصل میں کہیں زیادہ مہنگی ثابت ہوتی ہیں۔ چونکہ غریب ممالک میں ٹی بی ملیریا، ڈینگو اور ایچ آئی وی جیسی بیماریاں اب بھی بڑے پیمانے پر پھیلی ہوئی ہیں۔ صحت کے بنیادی ڈھانچے کی کمزوری کے باعث وقت پر جانچ اور علاج نہیں مل پانے کی وجہ سے مریض تاخیر سے اسپتال پہنچتے ہیں اور انہیں دوا کی لمبی کورس لینی پڑتی ہے۔ ساتھ ہی سستی جنرک ادویات پر انحصار ادویات کے معیار اور فراہمی میں عدم مساوات کے سبب لوگ کئی بار دوا بدلنے کو مجبور ہو جاتے ہیں۔ زیادہ تر ممالک میں ہیلتھ انشورنس کافی محدود ہے، جس کی وجہ سے ہر چھوٹے بڑے علاج کا بوجھ براہ راست خاندان پر پڑتا ہے۔
اگر ہندوستان کی بات کی جائے تو گھریلو بجٹ کا ایک بڑا حصہ صحت سے متعلق خرچ میں چلا جاتا ہے۔ نیشنل ہیلتھ اکاؤنٹس کے تازہ ترین اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ہندوستان میں تقریباً 55 فیصد صحت سے متعلق خرچ براہ راست لوگوں کی جیبوں سے ہوتا ہے۔ دیہی علاقوں میں یہ بوجھ اور بھی زیادہ ہے، کیونکہ وہاں ہیلتھ انشورنس کوریج بہت محدود ہے اور سرکاری اسپتالوں تک پہنچ کافی مشکل ہے۔