غزہ پر اسرائیل کی بہیمانہ کارروائی مسلسل جاری ہے۔ 21 مہینوں سے جاری اس جنگ میں میں 60 ہزار سے زیادہ فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔ غزہ کی وزارت صحت نے منگل کو جاری اپنے ایک بیان میں کہا کہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کے بعد سے مہلوکین کی تعداد 60034 ہو گئی ہے اور اس دوران 145870 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
وزارت صحت کے مطابق ہلاک شدگان میں تقریباً نصف تعداد خواتین اور بچوں کا ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر آزاد ماہرین نے اس اعداد و شمار کو سب سے زیادہ قابل اعتماد ہلاکتوں کی تعداد تسلیم کرتے ہیں۔
اسرائیلی حملوں نے غزہ کے بڑے علاقے کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ تقریباً 90 فیصد آبادی کو منتقل ہونا پڑا ہے اور غزہ میں خوفناک انسانی بحران پیدا ہو گیا ہے جس کی وجہ سے ماہرین نے قحط کی وارننگ دے دی ہے۔ اس درمیان خوراک بحران سے جڑے بین الاقوامی اتھاریٹی نے کہا ہے کہ اس وقت غزہ پٹی میں بھوک مری کی سب سے خراب حالت پیدا ہو رہی ہے اور اگر فوری کارروائی نہیں کی گئی تو اس سے بڑی تعداد میں لوگوں کی جان جانے اندیشہ ہے۔
غزہ سے غذائی قلت کے شکار بچوں کی خوفناک تصویریں سامنے آنے اور وہاں بھوک مری سے جڑے معاملوں کی خبروں کے درمیان انٹیگریٹڈ فوڈ سیکوریٹی فیز کلاسیفکیشن نے منگل کو یہ بیان دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ وارننگ ایک خطرے کی گھنٹی ہے۔ رپورٹ میں تصدیق کی گئی ہے کہ اپریل سے جولائی تک 20 ہزار سے زیادہ بچوں کو عدم تغذیہ کے سبب علاج کے لیے بھرتی کرایا گیا ہے جن میں سے 3 ہزار سے زیادہ سنگین طور سے عدم تغذیہ کے شکار ہیں۔
حالانکہ اسرائیل نے حال کے دنوں میں غزہ میں خوراک کی فراہمی بڑھانے کے لیے کئی اقدامات کا اعلان کیا ہے لیکن امدادی گروپس کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کا فوری طور پر کوئی اثر نہیں ہوا ہے۔
غزہ میں تحفظاتی نظام مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ بھوکے فلسطینیوں تک محفوظ طور پر کھانا پہنچانا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔ وہاں پہنچنے والی محدود امداد کی کالا بازاری شروع ہو گئی ہے۔ تاجروں کے ذریعہ جمع خوری کی جا رہی ہے اور خوراک اشیا کو زیادہ قیمتوں پر فروخت کیا جا رہا ہے۔ یہاں ایک کلو آٹے کی قیمت 60 ڈالر اور ایک کلو دال کی قیمت 35 ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔
غزہ میں اشیا کی بڑھتی قیمت زیادہ تر فلسطینیوں کی پہنچ سے باہر ہے، جس کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ وہاں قحط کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ عالمی دباؤ کی وجہ سے اس ہفتے کے آخر میں اسرائیل کے ذریعہ زیادہ امداد پہنچانے کے فیصلوں سے قیمتوں میں کچھ کمی آئی ہے، لیکن زمینی سطح پر اس کا اثر دکھائی نہیں دے رہا ہے۔