نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی منگل کے روز یعنی آج سعودی عرب کے دو روزہ سرکاری دورے پر روانہ ہو گئے۔ یہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب دنیا میں سفارتی توازن تیزی سے بدل رہا ہے اور ہندوستان مغربی ایشیا کے ساتھ اپنے اسٹریٹیجک تعلقات کو مزید گہرا کرنا چاہتا ہے۔ اس موقع پر کانگریس کے سینئر رہنما اور راجیہ سبھا کے رکن جے رام رمیش نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک اہم تاریخی واقعہ یاد دلاتے ہوئے موجودہ دورے کو ایک طویل سفارتی روایت کا تسلسل قرار دیا۔
جے رام رمیش نے اپنی پوسٹ میں 1955 میں سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سعود بن عبدالعزیز آل سعود کے 17 روزہ دورۂ ہند کا حوالہ دیا، جو 26 نومبر سے 13 دسمبر تک جاری رہا تھا۔ اس دوران سعودی بادشاہ نے دہلی، ممبئی، کھڑک واسلا، بنگلورو، میسور، حیدرآباد، آگرہ، علی گڑھ اور وارانسی جیسے اہم شہروں کا دورہ کیا تھا۔ اس دورے کو ہندوستان-سعودی عرب تعلقات کے ابتدائی اور مضبوط سنگ میل کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔
جے رام رمیش نے مزید بتایا کہ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہی وہ وقت تھا جب سوویت یونین کے دو طاقتور رہنما—نکیتا خروشیف اور نکولائی بولگانن—بھی ہندوستان کے دورے پر آئے ہوئے تھے۔ ان کے دو مرحلوں پر مشتمل اس دورے کی تاریخیں 18 سے 30 نومبر اور 7 سے 14 دسمبر 1955 تھیں، یعنی شاہ سعود اور سوویت رہنماؤں کے دورے ایک دوسرے سے متصادم ہو رہے تھے، جس سے اس وقت کے ہندوستانی خارجہ تعلقات کی اہمیت اور توازن کا اندازہ ہوتا ہے۔
جے رام رمیش نے اپنی پوسٹ کے ساتھ شاہ سعود اور پنڈت نہرو کے دوروں کی ویڈیوز اور تصویری جھلکیاں بھی شیئر کیں، جن میں اس وقت کے عوامی جوش و خروش اور مہمان نوازی کی جھلک نمایاں ہے۔
مودی کا یہ دورہ نہ صرف سفارتی تعلقات کو وسعت دینے کا موقع ہے بلکہ یہ ہندوستان کی مغربی ایشیائی پالیسی کے تحت ایک اہم قدم بھی تصور کیا جا رہا ہے۔