
نئی دہلی: پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کی شروعات ہوتے ہی پھر وہی پرانا منظر دیکھنے کو ملا—ہنگامہ آرائی، نعرے بازی اور ایوان کی بار بار معطلی۔ خاص طور پر اسپیشل انٹینسیو ریویژن (SIR) کو لے کر اپوزیشن نے زبردست احتجاج کیا اور اسے مکمل طور پر “ووٹ چوری کا ہتھکنڈہ” قرار دیا۔ دوسری طرف حکومت نے کہا کہ اس پر بحث کے لیے تیار ہے لیکن کوئی وقت کی شرط قبول نہیں کی جا سکتی۔ نتیجتاً، پیر اور منگل کے دونوں دن لوک سبھا چند ہی منٹوں میں ہنگامے کے درمیان ملتوی ہو گئی، اور عوامی پیسے کا بھاری نقصان ایک بار پھر خبروں کی سرخی بن گیا۔
پیر (1 دسمبر) کو ایوان تعزیتی کارروائی کے بعد معمول کے کام کے لیے شروع ہوا تو SIR پر نعرے بازی تیز ہو گئی۔ دوپہر 12 بجے دوبارہ کارروائی شروع ہوئی لیکن 2:12 منٹ پر لوک سبھا پھر سے ملتوی کر دی گئی، جس کے بعد پورے دن کوئی کام نہ ہو سکا۔ وزیر خزانہ نرملا ستارمن نے “منی پور جی ایس ٹی (دوسرا ترمیمی) بل 2025” پیش کیا جو منظور تو ہو گیا، لیکن باقی دن کاروائی رکی رہی۔ راجیہ سبھا میں بھی اپوزیشن نے واک آؤٹ کیا اور ایوان پورے دن نہ چل سکا۔
منگل (2 دسمبر) کی شروعات بھی کچھ مختلف نہ رہی۔ 11 بجے ایوان شروع ہوا لیکن اپوزیشن کے “Vote Chor SIR” کے نعرے لگتے ہی اسے پھر سے ملتوی کرنا پڑا۔ پارلیمانی امور کے وزیر کرن رجیجو نے کہا کہ حکومت بحث کے لیے تیار ہے، لیکن اپوزیشن کی شرطیں قبول نہیں کی جا سکتیں۔
مانسون سیشن
اگر پچھلے مانسون سیشن (21 جولائی تا 21 اگست 2025) پر نظر ڈالیں تو صورتحال تقریباً یہی تھی۔ 21 دن کے سیشن میں لوک سبھا کی پیداواری صلاحیت صرف 29% اور راجیہ سبھا کی 34% رہی۔ ایوان روزانہ چھ گھنٹے چلنا چاہیے تھا، لیکن مجموعی طور پر لوک سبھا میں 88.9 گھنٹے اور راجیہ سبھا میں 76.1 گھنٹے برباد ہوئے۔
کتنا مالی نقصان؟
سابق پارلیمانی امور کے وزیر پون بنسل کی 2012 کی رپورٹ کے مطابق:
- لوک سبھا کو ایک منٹ چلانے پر 2.5 لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔
- راجیہ سبھا کو ایک منٹ چلانے پر 1.25 لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔
اسی حساب سے:
- لوک سبھا کا فی گھنٹہ خرچ: 1.5 کروڑ روپے
- راجیہ سبھا کا فی گھنٹہ خرچ: 75 لاکھ روپے
اس لحاظ سے مانسون سیشن میں:
- لوک سبھا کے 133 کروڑ 35 لاکھ
- راجیہ سبھا کے 57 کروڑ روپے
یعنی مجموعی طور پر 190 کروڑ 42 لاکھ روپے عوام کے ٹیکس کا پیسہ برباد ہوا۔
پارلیمنٹ کا مقصد عوامی مفادات اور قانون سازی ہے، لیکن بار بار کی معطلی اور نعرے بازی نہ صرف جمہوریت کو نقصان پہنچا رہی ہے بلکہ عوام کے خون پسینے کی کمائی کو بھی رائیگاں کر رہی ہے۔ اگر سرمائی اجلاس بھی یوں ہی ہنگاموں کی نذر ہوتا رہا تو نقصانات کے نئے ریکارڈ ٹوٹنے کا خدشہ بڑھتا جا رہا ہے۔






