
پارٹی کے اندر اگر کوئی لیڈر سب سے زیادہ تنازعات میں رہتے ہوئے بھی پارٹی میں برقرار ہے تو وہ نام کانگریس لیڈر ششی تھرور کا ہے۔ آپریشن سندور کے دور سے ہی وہ وزیراعظم مودی اور حکومت کی تعریف کرتے رہے ہیں۔ اس بات کے چلتے وہ کئی بار نشانے پر آ چکے ہیں۔ رکن پارلیمنٹ ششی تھرور ایک بار پھر اپنے بیانات میں وزیراعظم مودی کی تعریف کے سبب پارٹی کے اندر تنازعوں میں گھر گئے ہیں۔ تھرور کے اس رویے نے ان کے کانگریس ساتھیوں کو ناراض کر دیا ہے۔
کیا کہہ گئے تھے ششی تھرور؟
کانگریس لیڈر ششی تھرور نے وزیراعظم نریندر مودی کی تعریف کی ہے، جس کے بعد ان کی پارٹی کے اندر ہی سوال اٹھنے لگے ہیں۔ تھرور نے وزیراعظم مودی کے رمناتھ گوئنکا لیکچر کی تعریف کی، جس میں انہوں نے بھارت کی ترقی اور ثقافتی پیغام پر زور دیا تھا۔ انہوں نے کہا- وزیراعظم نریندر مودی کے دیے گئے رام ناتھ گوئنکا لیکچر کی عوامی طور پر تعریف کرتے ہوئے ششی تھرور نے کہا کہ وزیراعظم مودی کا خطاب ایک معاشی نقطہ نظر اور ثقافتی اقدام کی اپیل تھا، جس میں ’ابھرتی ہوئی مارکیٹ‘ سے’ابھرتے ہوئے ماڈل‘ کی طرف توجہ دلائی گئی۔
ساتھی لیڈر نے بتایا فریبی
تھرور کے اس رویے نے ان کے کانگریس ساتھیوں کو ناراض کر دیا ہے۔ کانگریس لیڈر سندیپ دکشت نے تھرور پر سخت حملہ کرتے ہوئے انہیں فریبی کہا اور سوال کیا کہ اگر انہیں بی جے پی اور وزیراعظم مودی کی پالیسیاں بہتر لگتی ہیں، تو وہ صرف رکن پارلیمنٹ بنے رہنے کے لیے کانگریس میں کیوں ہیں؟ سندیپ دکشت نے کہا: ’’مجھے نہیں لگتا کہ انہیں ملک کے بارے میں بہت علم ہے۔ اگر آپ کے مطابق کوئی کانگریس کی پالیسی کے خلاف جا کر ملک کا بھلا کر رہا ہے، تو آپ کو ان پالیسیوں کی پیروی کرنی چاہیے۔ آپ کانگریس میں کیوں ہیں؟ اگر آپ کو واقعی لگتا ہے کہ بی جے پی یا وزیراعظم مودی کی حکمت عملی آپ کی پارٹی سے بہتر کام کر رہی ہے، تو آپ کو اس کی وضاحت کرنی چاہیے۔ آپ دوغلے ہیں۔‘‘
پارٹی ڈسپلن اور اتحاد کے خلاف
تھارور کا یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب انہوں نے حال ہی میں لال کرشن اڈوانی پر ہونے والی تنقید کا بھی دفاع کیا تھا، جس سے کانگریس پہلے ہی خود کو الگ کر چکی تھی۔ سپریا شرینیت جیسے دوسرے لیڈروں نے بھی صاف کہا کہ انہیں وزیراعظم مودی کے خطاب میں کوئی ایسی چیز نظر نہیں آئی جس کی تعریف کی جائے۔ یہ لگاتار دوسرا ایسا واقعہ ہے جس نے تھرور اور کانگریس پارٹی کے درمیان نظریاتی فاصلے کو واضح کر دیا ہے۔ کانگریس لیڈروں کے سخت ردعمل سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پارٹی لائن سے اوپر بولنے والوں کو جلد ہی باہر کا راستہ دکھا دیا جائے گا۔






