نئی دہلی: سپریم کورٹ آف انڈیا نے چائلڈ میرج (بال شادی) پر نئی گائیڈ لائنز جاری کی ہیں، جس میں واضح کیا گیا ہے کہ چائلڈ میرج روک تھام کا قانون کسی بھی پرسنل قانون کی روایات سے متاثر نہیں ہوگا۔ یہ فیصلہ ایک غیر سرکاری تنظیم کی طرف سے دائر کردہ درخواست پر آیا ہے، جس میں الزام لگایا گیا کہ مختلف ریاستوں میں بال شادی روکنے کے قانون کا مؤثر نفاذ نہیں ہو رہا، جس کے نتیجے میں بال شادی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ والدین کی طرف سے اپنی نابالغ بیٹیوں یا بیٹوں کی بالغ ہونے کے بعد شادی کے لیے سگائی کرنا، نابالغوں کی اپنی زندگی کے ساتھی کو چننے کی آزادی کی خلاف ورزی ہے۔ اس فیصلے کے پس منظر میں ملک بھر میں بال شادی کے خلاف دی جانے والی درخواستوں کی سماعت کی گئی۔ سماعت کے دوران عدالت نے مرکزی حکومت کو ہدایت دی کہ وہ ریاستوں کے ساتھ بات چیت کر کے بتائے کہ بال شادی پر پابندی کے قانون پر مؤثر عمل درآمد کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندراچوڑ نے اس فیصلے کے دوران کہا، ’’دفعہ اور مقدمات کے بجائے، ہمیں پابندی اور روک تھام پر زور دینا چاہیے۔ ہم نے قانون اور سماجیات کے تجزیے کے پورے دائرے کا جائزہ لیا ہے۔ ہم نے بال شادی روک تھام کے قانون کے مؤثر نفاذ کے لیے مختلف ہدایات دی ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ محروم طبقوں، تعلیم کی کمی اور غربت سے متاثرہ لڑکیوں کی مشاورت کی جائے۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ یہ مسائل ایک بڑے سماجی ڈھانچے میں موجود ہیں اور ان کا حل صرف کسی نقطہ نظر سے نہیں نکالا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ شعور بیدار کرنے کی مہمات، فنڈنگ کی مہمات اور دیگر ایسے اقدامات ضروری ہیں، جن کی گائیڈ لائنز جاری کی گئی ہیں۔