حال ہی میں ایک عالمی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ سال 2023 میں ہندوستان کی پیداواری کی صنعت نے سب سے زیادہ رینسم ویئر یعنی بھتہ خوری یا تاوان کے لیے استعمال ہونے والے کمپیوٹر پروگرام یا یوں کہیں کہ وائرس کے حملے برداشت کئے ہیں۔
کمپیوٹر وائرس کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو دنیا کا سب سے پہلا وائرس 2 پاکستانی بھائیوں باسط علوی اور امجد علوی نے تیار کیا تھا، جو اس وقت محض 17 سال اور 24 سال کے تھے۔ دونوں بھائی لاہور میں ایک کمپیوٹر کی دکان چلاتے تھے۔ جب ان بھائیوں کو علم ہوا کہ ان کے صارفین ان کے سافٹ وئیر کی غیرقانونی کاپیاں تیار کر رہے ہیں تو انہوں نے اس کے خلاف اقدام لینے کا فیصلہ کیا۔ دونوں بھائیوں نے ’برین‘ نام کا ایک پروگرام تیار کیا، جسے آج دنیا سب سے پہلے وائرس کے طور پر جانتی ہے۔
پاکستان کے دونوں بھائیوں نے جو وائرس بنایا تھا وہ کسی کمپیوٹر کے ڈیٹا پر حملہ نہیں کرتا تھا اور نہ ہی کسی دوسری طرح کی خرابی پیدا کرتا تھا، صرف پرائیریسی کی صورت میں خود کو کمپیورٹ پر لوڈ کر دیتا تھا لیکن بعد میں جو وائرس بنائے گئے ان کے ذریعے لوگوں کے کمپورٹر کو نشانہ بنایا گیا، ان کے ڈیٹا کی چوری کی گئی، حتی کہ بھتہ خوری تک کے لیے اس کا استعمال کیا جانے لگا اور آج بھی کیا جا رہا ہے۔ ہندوستان کا مینوفیکرنگ سیکٹر بھی وائرس کی ہی ایک قسم کی زد میں ہے، جسے رینسم ویئر کہا جاتا ہے۔
رینسم ویئر کا استعمال کرتے ہوئے ہیکرز مختلف اداروں سے اہم معلومات اور کمپنیوں سے ان کا ریکارڈ چوری کر لیتے ہیں۔ جرائم پیشہ افراد کی جانب سے کسی کمپنی کو نشانہ بنائے جانے کے بعد اس کے کمپیوٹر میں خرابی بھی پیدا کر دی جاتی ہے، جس سے کمپنی اپنے ضروری ڈیٹا تک رسائی حاصل کرنے کے قابل نہیں رہ جاتی۔ پھر ہیکرز متاثرہ کمپنی سے رابطہ کر کے اسے بلیک میل کرتے ہیں اور ڈیٹا واپس کرنے اور کمپیوٹر کو صحیح کرنے کے عوض تاوان مانگتے ہیں۔
چوری، ڈکیتی، راہزنی اور دیگر قسم کے جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو پکڑے جانے اور جیل جانے کا خدشہ ہوتا ہے لہذا انہوں نے دور سے ہی کسی شخص کو دھمکی دے کر یا اس کے ڈیٹا میں نقب زنی کر کے تاوان حاصل کرنے کے لیے رینسم ویئر کا استعمال شروع کر دیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق رینسم ویئر کا پہلا معاملہ 1989میں سامنے آیا تھا۔ اس کے بعد سے سالہا سال یہ جرم تقوقت حاصل کرتا گیا اور زیادہ منافع بخش بنتا چلا گیا۔ آج رینسم ویئر کی غالباً 20 سے زائد مختلف اقسام موجود ہیں۔
یہ وائرس موبائل فون کے لیے بھی خطرناک ہے کیونکہ اسے کسی بھی موبائل ایپ میں چھپایا جا سکتا ہے اور ایپ انسٹال کرنے کے دوران وائرس فون میں منتقل ہو جاتا ہے۔ اس سے بچنے کے لیے صارفین کو کسی بھی ایپ کو اپنے موبائل فون میں انسٹال کرنے سے پہلے گوگل پلے پر یہ جان لینا چاہئے کہ وہ ایپ کہاں سے آئی ہے اور اس کے بارے میں لوگوں کی کیا رائے ہے۔ اس طرح وہ ناقابل اعتماد ذرائع سے آنے والی ایپس کو انسٹال کرنے سے بچ سکتے ہیں۔
دیگر کمپیوٹر وائرس کی طرح رینسم ویئرکو بھی جعلی ای میل، ا سپیم میل، یا بھر نقلی سافٹ ویئر کی صورت میں بھیجا جاتا ہے۔ اگر صارف نے ان میں سے کسی پر بھی کلک کر دیا تو وہ وائرس ان کے کمپیوٹر میں داخل ہو جاتا ہے۔ رینسم ویئر کا استعمال کرنے والے ہیکرز آپ کے ڈیٹا کو لاک یعنی مقفل کر دیتے ہیں، چونکہ عام طور لوگ اپنے ڈیٹا کا ’بیک اپ’ تیار نہیں کرتے، لہذا اپنا ڈیٹا واپس لینے کی غرض سے وہ تاوان ادا کرتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ رینسم ویئر جیسے خطرات سے بچنا چاہتے ہیں تو اپنے ڈیٹا کا وقتاً فوقتاً بیک اپ تیار کرتے رہیں۔ اگر اپ کے پاس بیک اپ ہوگا تو کسی حملے کی صورت میں اس کا استعمال کرتے ہوئے آپ اپنے ڈیٹا کو دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں۔