نیپال میں سوشل میڈیا ایپس پر عائد پابندی کے خلاف ہزاروں نوجوان سڑکوں پر نکل کر ہنگامہ برپا کیے ہوئے ہیں۔ ان نوجوانوں نے راجدھانی کاٹھمنڈو سمیت کئی شہروں میں پُرتشدد مظاہرہ شروع کر دیا ہے، جس کے خوفناک مناظر سامنے آ رہے ہیں۔ جگہ جگہ آگ زنی اور توڑ پھوڑ کی گئی ہے، ساتھ ہی فائرنگ کے واقعات بھی پیش آئے ہیں۔ سینکڑوں نوجوانوں نے پارلیمنٹ کے اندر گھس کر اپنی ناراضگی کا مظاہرہ کیا اور پارلیمنٹ کے گیٹ کو آگ کے حوالے کر دیا۔ اس واقعہ کی کچھ ویڈیوز بھی سامنے آئی ہیں۔
اس وقت نیپال میں حالات انتہائی کشیدہ بتائے جا رہے ہیں۔ مظاہرین کی بھیڑ کو قابو میں کرنے کے لیے پولیس نے آنسو گیس کے گولے چھوڑے اور واٹر کینن کا بھی استعمال کیا گیا، لیکن مظاہرہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ پولیس فائرنگ کے دوران 14 مظاہرین کی موت بھی ہو چکی ہے اور 100 سے مظاہرین کے زخمی ہونے کی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔ اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد آنے والے وقت میں بڑھ سکتی ہے۔
واضح رہے کہ مظاہرین کا غصہ صرف سوشل میڈیا پر عائد پابندی کو لے کر ہی نہیں ہے، بلکہ وہ بے روزگاری، بدعنوانی اور معاشی بحران کے لیے حکومت کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔ وراٹ نگر، بھرت پور اور پوکھرا میں مظاہرہ کر رہے نوجوان اس بارے میں کھل کر باتیں کر رہے ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ جو لوگ فیس بک یا انسٹاگرام کے ذریعہ سامان فروخت کرتے تھے، ان کا بزنس پوری طرح سے ٹھپ پڑ گیا ہے۔ یوٹیوب اور گٹ ہب جیسے پلیٹ فارم نہیں چلنے سے بچوں کی پڑھائی بھی متاثر ہو رہی ہے۔ بیرون ممالک میں رہنے والے لوگوں سے بات کرنا بھی مہنگا اور مشکل ہو گیا ہے۔ لوگوں میں ناراضگی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ کئی لوگوں نے وی پی این سے پابندی توڑنے کی بھی کوشش کی۔