پونے کے چندن نگر علاقے میں پیش آئے ایک واقعے نے نہ صرف ایک خاندان بلکہ پورے نظام پر سوال اٹھا دیے ہیں۔ ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق 1999 کی کارگل جنگ میں حصہ لے چکے سابق فوجی حکیم الدین شیخ کے خاندان نے الزام لگایا ہے کہ پولیس اہلکار اور ہندوتوا نظریے سے وابستہ افراد پر مشتمل ایک ہجوم ان کے گھر میں داخل ہوا، انہیں اور ان کے اہل خانہ کو آدھی رات کو نیند سے جگا کر شہریت ثابت کرنے پر مجبور کیا گیا۔
خاندان کے مطابق ہفتہ کی رات تقریباً 30 سے 40 افراد ان کے گھر پر چڑھ دوڑے، نعرے بازی کی، دروازہ پیٹا اور گھر میں موجود خواتین کو بھی بدتمیزی کا نشانہ بنایا۔ رپورٹ کے مطابق، حکیم الدین کے بھائی ارشاد شیخ نے بتایا، ’’وہ ہمیں دھمکا رہے تھے کہ اگر ہم نے کاغذات نہ دیے تو ہمیں بنگلہ دیشی یا روہنگیا قرار دے کر حراست میں لے لیا جائے گا۔‘‘
حکیم الدین شیخ نے بتایا، ’’میں نے کارگل جنگ میں اس سرزمین کے دفاع کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈالی، آج اسی ملک میں مجھے غیر ملکی کہا جا رہا ہے۔ کیا ہماری حب الوطنی کو اب صرف نام سے تولا جائے گا؟‘‘
خاندان کے افراد کو اتوار کو بھی دوبارہ تھانے بلایا گیا، جہاں دو گھنٹے انتظار کے بعد انہیں مطلع کیا گیا کہ متعلقہ افسر موجود نہیں۔ حکیم الدین کے بھتیجے شمشاد شیخ کے مطابق ان کے اصل دستاویزات اب بھی پولیس کے قبضے میں ہیں۔
خاندان کے مطابق حکیم الدین کے علاوہ ان کے دو بھائی نعیم الدین اور محمد سلیم بھی فوج میں خدمات انجام دے چکے ہیں اور بالترتیب 1965 اور 1971 کی جنگوں میں شریک رہ چکے ہیں۔ ارشاد شیخ نے کہا، ’’ہم نے فوج میں نسلوں تک خدمات دی ہیں، کیا اب بھی ہمیں اپنی وفاداری ثابت کرنی ہوگی؟‘‘
پولیس نے میڈیا کو بتایا کہ انہیں کچھ ’مشکوک افراد‘ کی موجودگی کی اطلاع ملی تھی اور کارروائی اسی بنیاد پر کی گئی مگر خاندان نے الزام عائد کیا کہ یہ کارروائی منظم طریقے سے صرف مسلم نام والے خاندان کو ہراساں کرنے کے لیے کی گئی۔ خاندان نے اس واقعے پر آزاد عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ صرف ایک گھر پر چھاپہ نہیں بلکہ اس ملک کے وفادار فوجیوں کی عزت پر حملہ ہے۔