نئی دہلی: سپریم کورٹ میں جمعرات کو مسلسل دوسرے دن وقف ترمیمی قانون کے خلاف دائر عرضیوں پر سماعت ہوئی۔ عدالت نے اس معاملے پر دوپہر دو بجے سماعت شروع کی۔ اس سے قبل بدھ کے روز بھی اسی معاملے پر عدالت میں تفصیلی سماعت ہوئی تھی، جس میں مسلم فریق اور مرکزی حکومت نے اپنی اپنی دلیلیں پیش کی تھیں۔
چیف جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشواناتھن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے اس معاملے کی سماعت کی۔ عدالت نے اشارہ دیا کہ وہ وقف قانون کے تین اہم پہلوؤں پر عبوری حکم جاری کر سکتی ہے۔ اس میں وقف قرار دی گئی جائیدادوں کو ڈی نوٹیفائی نہ کرنا، کلکٹر کی اختیارات پر ممکنہ روک اور وقف بورڈ میں غیر مسلموں کی شمولیت پر عبوری حکم شامل ہو سکتا ہے۔
عدالت میں مرکزی حکومت نے مؤقف اختیار کیا کہ کوئی بھی عبوری حکم جاری کرنے سے قبل حکومت کو اپنا جواب پیش کرنے کا موقع دیا جائے۔ عدالت نے اس درخواست کو تسلیم کرتے ہوئے مرکز کو سات دن کی مہلت دی ہے تاکہ وہ تفصیلی جواب داخل کرے۔
اس دوران عدالت نے واضح طور پر کہا ہے کہ اگلے حکم تک وقف کے اسٹیٹس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔ وقف بورڈ اور وقف کونسل میں کسی بھی نئی تقرری پر بھی روک لگا دی گئی ہے، جب کہ وقف بائی لاز میں بھی کسی قسم کی ترمیم نہیں کی جا سکتی۔
سپریم کورٹ میں اس قانون کے خلاف مجموعی طور پر 73 رِٹ عرضیاں دائر کی گئی ہیں، جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ترمیم شدہ قانون کے تحت وقف املاک کا نظم و نسق غیر معمولی انداز میں کیا جائے گا اور یہ قانون مسلمانوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
عدالت نے تمام فریقین سے کہا ہے کہ وہ آپس میں مشورہ کر کے پانچ ایسے اہم اعتراضات طے کریں جن پر بحث ہونی چاہیے، کیونکہ عدالت کے مطابق 110 سے زائد فائلیں پڑھنا ممکن نہیں۔ عدالت نے نوڈل کونسل کے ذریعے ان نکات کو طے کرنے کی ہدایت دی ہے۔ اگلی سماعت پانچ مئی کو مقرر کی گئی ہے اور صرف پانچ بنیادی عرضی گزاروں کو اس میں پیش ہونے کی اجازت ہوگی۔
سپریم کورٹ کے اس عبوری فیصلے کو وقف سے متعلقہ امور میں ایک اہم پیش رفت تصور کیا جا رہا ہے، کیونکہ اس سے نہ صرف موجودہ حیثیت برقرار رہے گی بلکہ کسی بھی ممکنہ نئی تقرری یا تبدیلی پر فی الحال پابندی عائد ہو گئی ہے۔ عدالت کا مقصد واضح ہے کہ تمام فریق پہلے اہم نکات پر اتفاق رائے پیدا کریں تاکہ سماعت کو مؤثر انداز میں آگے بڑھایا جا سکے۔