جوں جوں الیکشن کا موسم اختتام کو پہنچ رہا ہے، سماج کو تقسیم کرنے کا پروپیگنڈا بھی اپنے عروج کو پہنچ رہا ہے۔ بی جے پی کے اہم تشہیرکار خود وزیر اعظم مودی ہیں۔ اس الیکشن میں ان کا پورا بیانیہ اس جھوٹ کے گرد بنی ہوئی ہے کہ اگر انڈیا الائنس اقتدار میں آتا ہے تو وہ تمام سہولیات اور مراعات صرف مسلمانوں کو فراہم کرے گا۔ ہر چیز پر پہلا حق مسلمانوں کا ہوگا اور آئین میں ایسی تبدیلیاں کی جائیں گی کہ ہندو اس ملک کے دوسرے درجے کے شہری بن جائیں گے۔ مودی جی ہمیں جارج آرویل کے ناول ’نائنٹین ایٹی فور‘ کی یاد دلاتے ہیں، جس میں سچائی کو سر کے بل کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ ہندوؤں میں یہ خوف پیدا کیا جا رہا ہے کہ مسلمان ملک میں تمام مراعات حاصل کر لیں گے۔
حال ہی میں وزیر اعظم کی اقتصادی مشاورتی کونسل نے اس مہم کے تحت ایک رپورٹ جاری کی جس میں بتایا گیا ہے کہ 1950 سے 2015 کے درمیان ہندوؤں کی آبادی میں تقریباً 8 فیصد کمی ہوئی جبکہ مسلمانوں کی آبادی میں 43 فیصد اضافہ ہوا۔ رپورٹ کے مطابق 1950 میں ہندو کل آبادی کا 84 فیصد تھے جو 2015 میں کم ہو کر 78 فیصد رہ گئے۔ اسی عرصے کے دوران مسلمانوں، عیسائیوں، بدھوں اور سکھوں کی آبادی میں اضافہ ہوا جبکہ جین اور پارسیوں کی آبادی میں کمی واقع ہوئی۔
وزیراعظم کی اقتصادی مشاورتی کونسل کیا ہے؟ یہ 2017 میں تشکیل دی گئی تھی اور اس کا کام معاشی مسائل پر وزیر اعظم کو تحقیق اور مشورہ دینا ہے۔ اس کی ’تحقیق‘ کی ایک مثال چند سال پہلے اس وقت سامنے آئی جب اس کے سربراہ ویویک دیب رائے نے کونسل کی ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’تحریری آئین کی اوسط عمر صرف 17 سال ہوتی ہے۔‘‘ ہندوستان کے موجودہ آئین کو ’نوآبادیاتی میراث‘ قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’ہندوستان کا موجودہ آئین بنیادی طور پر گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 پر مبنی ہے اور اس لحاظ سے بھی یہ ایک نوآبادیاتی میراث ہے۔‘‘
اور اب انتخابات کے درمیان یہ عجیب و غریب مطالعہ جاری کیا گیا ہے۔ اس سے مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈے کو فروغ ملے گا اور اس نعرے کو بھی فروغ ملے گا کہ ’ہندو خطرے میں ہیں‘، جو گزشتہ کئی دہائیوں سے بلند کیا جا رہا ہے۔ یہ رپورٹ تیار کرنے والے تین محققین نے ڈیٹا کے تجزیہ کے تمام معیارات کی خلاف ورزی کی ہے۔ سب سے پہلے، آبادیاتی مطالعہ مردم شماری پر مبنی ہوتا ہے لیکن یہ مطالعہ ایک تنظیم ایسوسی ایشن آف ریلیجیئس ڈیٹا آرکائیوز (اے آر ڈی اے) کے 23 لاکھ لوگوں کے سروے پر مبنی ہے۔ تئیس لاکھ ہماری کل آبادی کا بہت چھوٹا حصہ ہے۔ مردم شماری کا ڈیٹا زیادہ قابل اعتماد اور جامع ہوتا ہے اور آبادی میں اضافے کے مختلف پہلوؤں کو سامنے لاتا ہے۔ صرف حکمران جماعت ہی جانتی ہے کہ 2021 کی مردم شماری کیوں نہیں کرائی گئی۔ ان محققین نے مردم شماری کا زیادہ قابل اعتماد ڈیٹا نہیں بلکہ کسی نامعلوم تنظیم کے سروے کا ڈیٹا استعمال کیا۔
پھر، یہ مطالعہ 1950 کے ڈیٹا کا 2015 کے ڈیٹا سے موازنہ کرتا ہے جو بے تکی بات ہے۔ میڈیا اور فرقہ پرست تنظیمیں اس مطالعہ کو معاشرے کو تقسیم کرنے کے لیے اپنے پروپیگنڈے کو مزید تقویت دینے کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ یہ مطالعہ عام معاشرتی سمجھ میں مدد کرتا ہے کہ مسلمان زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں۔
اس پروپیگنڈے کو ہوا دینے میں ہمارے وزیراعظم نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ جب وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے تو انہوں نے فسادات سے متاثرہ مسلمانوں کے پناہ گزین کیمپوں کو بچے پیدا کرنے کی فیکٹریاں قرار دیا تھا۔ انہوں نے ان کیمپوں کو بند کر دیا تھا۔ اب وہ زور زور سے کہہ رہے ہیں کہ کانگریس ہندوؤں سے منگل سوتر اور بھینسیں چھین کر زیادہ بچے پیدا کرنے والوں کو دے گی۔
حقیقت کیا ہے؟ کون سی کمیونٹی کتنے بچے پیدا کرتی ہے اسے جاننے کا بہترین طریقہ ٹوٹل فرٹیلٹی ریٹ (ٹی ایف آر) یعنی جامع شرح پیدائش ہے۔ نیشنل ہیلتھ سروے کے مطابق تقریباً تمام کمیونٹیز میں شرح پیدائش کم ہو رہی ہے۔ 1992-93 میں ہندوؤں کے معاملے میں یہ 3.3 اور مسلمانوں کے معاملے میں 4.41 تھی۔ 2019-2021 میں، ہندوؤں کے معاملے میں یہ 1.94 اور مسلمانوں کے معاملے میں 2.36 تھی۔ اس طرح اس عرصے کے دوران ہندوؤں کی شرح پیدائش میں 41.22 فیصد اور مسلمانوں کی شرح پیدائش میں 46.49 فیصد کمی واقع ہوئی۔ واضح رہے کہ مسلمانوں کی شرح پیدائش ہندوؤں کے مقابلے میں زیادہ کم ہوئی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر مسلمانوں کی شرح پیدائش میں کمی ہوتی رہی تو یہ جلد ہی ہندوؤں کی شرح پیدائش کے قریب پہنچ جائے گی۔
ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ آیا شرح پیدائش کا تعلق مذہب سے ہے یا دیگر عوامل اس پر اثر انداز ہوتے ہیں؟ فرقہ پرست قوم پرست دن رات کہتے رہتے ہیں کہ مسلمان جان بوجھ کر اپنی آبادی بڑھا رہے ہیں تاکہ وہ ہندوستان میں اکثریت میں آ جائیں اور غزوہ ہند کا مبینہ خواب پورا کر سکیں!
یہ بہت بڑا جھوٹ ہے کہ اگر ہماری آبادی اسی طرح بڑھتی رہی تو ملک میں ہندو اقلیت بن جائیں گے۔ پہلی بات تو یہ کہ ایک خاندان کے بچوں کی تعداد کا تعین بنیادی طور پر دو عوامل سے ہوتا ہے۔ پہلا خاندان کی غربت کی سطح اور دوسرا متعلقہ کمیونٹی اور خاص طور پر خواتین کی تعلیم کی سطح۔ اگر ہم کیرالہ، کشمیر اور کرناٹک میں مسلم خواتین کے ٹی ایف آر کا موازنہ بہار، راجستھان اور مدھیہ پردیش کی ہندو خواتین کے ٹی ایف آر سے کریں، تو یہ واضح ہو جائے گا کہ ہندوؤں کا ٹی ایف آر مسلمانوں سے زیادہ ہے۔
شاشوتا گھوش کی طرف سے کئے گئے ایک مطالعہ کے مطابق، ’’مردم شماری 2011 اور مردم شماری 2001 میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی شرح پیدائش میں فرق یہ واضح کرتا ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کی شرح پیدائش ایک دوسرے کے قریب آ رہی ہے۔ ہاں، اس میں علاقائی تغیرات ہیں کیونکہ مختلف ریاستوں اور خطوں میں مذہبی کمیونٹیز سوچ میں تبدیلی کی مختلف سطحوں پر ہیں۔‘‘
ایس وائی قریشی کی کتاب ’دی پاپولیشن میتھ: اسلام، فیملی پلاننگ اینڈ پولیٹکس ان انڈیا‘ اس مسئلے پر روشنی ڈالتی ہے۔ کتاب کے مطابق، ہندوستان کی 29 ریاستوں میں سے 24 میں ٹی ایف آر 2.179 کے قریب آ رہا ہے۔ اگر یہ 2.1 پر آ جائے گا تو آبادی میں استحکام آ جائے گا۔
ایک اندازے کے مطابق مسلم آبادی جو کہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق کل آبادی کا 14.2 فیصد ہے، 2050 تک بڑھ کر کل آبادی کا 18.5 فیصد ہو جائے گی اور پھر وہیں مستحکم رہے گی۔ مسلم آبادی کی دہائی میں شرح نمو بھی مسلسل کم ہو رہی ہے۔
ان معتبر مطالعات کے بعد بھی فرقہ پرست عناصر اب بھی وہی راگ الاپ رہے ہیں۔ مسلمانوں کے ایک وفد نے آر ایس ایس کے سر سنگھ چالک موہن بھاگوت سے ملاقات کی۔ ایس وائی قریشی بھی اس میں شامل تھے۔ میٹنگ کے دوران قریشی نے بھاگوت کو اپنی کتاب کی ایک کاپی پیش کی، جس میں سنگھ پریوار کی طرف سے کئے جا رہے پروپیگنڈے کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ پھر بھی چند ہفتوں بعد، بھاگوت نے ایک بیان جاری کیا جس میں ’مختلف برادریوں کی آبادی میں توازن برقرار رکھنے‘ کی ضرورت پر زور دیا گیا!