چاندنی چوک پارلیمانی حلقے کے رہائشی ڈاکٹر معید جن کا کلینک شمال مشرقی پارلیمانی حلقہ میں ہے، وہ کہتے ہیں، ’’انتخابات کی طرف ووٹروں کی لاتعلقی کی دو بنیادی وجوہات ہیں، پہلی یہ ہے کہ رائے دہندگان ایک پارٹی کی انتخابی تقریبات میں اس لئے حصہ نہیں لیتے کیونکہ وہ پارٹی گزشتہ دس سال سے اقتدار میں ہے اور وہ صرف مذہب کی بات کرتی ہے۔ دوسری بڑی وجہ سوشل میڈیا کا عروج ہے۔ عوام کا انتخابی جلسوں یا مباحثوں پر وقت گزارنے کی بجائے زیادہ وقت اپنی موبائل اسکرین پر گزرتا ہے۔
ملک کی راجدھانی اور میڈیا کا مرکزمیں انتخابی سرگرمیاں عروج پر ہیں لیکن پھر بھی پہلے جیسی رونق نہیں ہے۔ ٹکٹوں کی تقسیم پر تناؤ، قائدین کے ذریعہ سیاسی وفاداریوں کی تبدیلی اوراین سی آر کے وزیر اعلی اروند کیجریوال کی گرفتاری پھر عبوری ضمانت دیا جانا یعنی سیاسی میدان میں سرگرمی تو ہے۔ تاہم، ان واقعات کے باوجود، عوام میں بے حسی کا نمایاں احساس ہے۔ چترنجن پارک کی رہائشی سوسانتا دیب کا دعویٰ ہے کہ لوگ انتخابات کے تئیں لاتعلق نہیں ہیں، بلکہ وہ اپنے گھروں کی حدود میں سیاسی بحث میں مصروف نظر آتے ہیں۔ تاہم، سماجی تقسیم انہیں اپنی وابستگی چھپانے پر مجبور کرتی ہے۔ سوسانتا دیب کہتے ہیں، ’’لوگ اپنے قریبیوں سے بھی کہتے ہیں کہ وہ اپنے خیالات باہر کے لوگوں کے ساتھ شیئر نہ کریں۔‘‘
سیاسی وفاداریوں میں متواتر تبدیلیوں پر شہری مایوسی کا اظہار کرتے ہیں۔ رنجیت نگر کے رہنے والے عماد الدین کہتے ہیں، ’’مجھے نہیں لگتا کہ کانگریس کے سابق صدر اروندر سنگھ لولی اور شیلا دکشت کی حکومت میں وزیر رہے راجکمار چوہان کے منحرف ہونے سے نتائج پر کوئی نمایاں اثر پڑے گا۔‘‘ ان کا ماننا ہے کہ موجودہ انتخابات مودی نواز اور مودی مخالف دھڑوں کے درمیان ہیں اس لئے وفاداریاں تبدیلی کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
تجربہ کار کانگریس لیڈر چھتر سنگھ پرامید ہیں اور وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مسلمان، درج فہرست ذاتوں اور اعلیٰ ذاتوں کے لبرل اراکین جوش و جذبے کا مظاہرہ کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے انڈیا (انڈین نیشنل ڈیموکریٹک انکلوسیو الائنس) واضح دوڑ میں نظر آ رہا ہے۔ اس کے برعکس این ڈی اے (نیشنل ڈیموکریٹک الائنس) کے ووٹر بے حس دکھائی دے رہے ہیں، مذہب یا مسلم مخالف جذبات ہی انہیں پولنگ بوتھ تک گھیسٹ کر لے جانے پر مجبور کر رہے ہیں۔ ان رائے دہندگان کی نظر میں حکومت کی کارکردگی اطمینان بخش نہیں ہے۔ چھتر سنگھ زور دیتے ہیں، ’’شیڈیولڈ کاسٹ کے ووٹروں میں یہ گہرا یقین ہے کہ اگر موجودہ حکومت اقتدار میں رہتی ہے تو آئین خطرے میں پڑ جائے گا۔ وہ آئین کا احترام اس لئے بھی کرتے ہیں کیونکہ وہ اس کو اپنے ہر دلعزیز رہنما ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی میراث سمجھتے ہیں۔‘‘
اتحاد میں ہونے کے باوجود عآپ (عام آدمی پارٹی) اور کانگریس کو ووٹروں کو یہ بتانے میں چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کہ انہیں ایک دوسرے کے انتخابی نشانات کو ووٹ دینے کی ضرورت ہے۔ سابق ایم ایل اے چودھری متین غیر مسلم ووٹروں میں تبدیلی کا مشاہدہ کرتے ہیں، جو موجودہ حکومت کے خلاف ممکنہ تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے اور یہ ان کے خیال میں ایک امید افزا پہلو ہے۔ انہوں نے مام 7 سیٹوں پر انڈیا کے لیے ممکنہ کامیابی کی پیشن گوئی کی ہے۔
جبکہ بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی) کومت کی مبینہ بدعنوانی پر تنقید کرتی ہے، خاص طور پر وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال، منیش سسودیا، ستیندر جین، اور سنجے سنگھ کی حالیہ گرفتاریوں پر خوب بولتی ہے لیکن اس کے باوجود یہ ان کا انتخابی تشہیر کا مرکزی موضوع نہیں ہے۔ بی جے پی کے لئے مذہبی جذبات اور وزیر اعظم مودی کی موجودگی ہی سب سے بڑا موضوع ہے۔ انتخابی مہم کے دوران وزیر اعلی اروند کیجریوال کو عبوری ضمانت دینے کے عدالت کے فیصلے پر بی جے پی کے حامی مایوسی کا اظہار کرتے ہیں، اور اسے عآپ کے کارکنوں کے حوصلے بڑھانے کے طور پر دیکھتے ہیں۔
اگرچہ بی جے پی نے شمال مشرقی رکن پارلیمنٹ منوج تیواری کے علاوہ کسی بھی موجودہ رکن پارلیمنٹ کو دوبارہ نامزد نہیں کیا لیکن اندرونی ذرائع بتاتے ہیں کہ تیواری کی امیدواری ان کی کارکردگی سے زیادہ ان کے بھوجپوری پس منظر کی وجہ سے ہوئی ہے۔ جنوبی سے آر ایس ایس کے سخت گیر کارکن رمیش بدھوڑی کو ٹکٹ نہ دینے سے بھی بہت سے لوگوں کو حیرانی ہوئی ہے۔
مشرقی کے انچارج نیرج شرما دہلی کے آبادیاتی منظر نامے کو نوٹ کرتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ بہار کے لوگ اب سیاست میں زیادہ فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ آزادی کے بعد سے دہلی کے سیاسی منظر نامے پر پنجابی اور ویش برادریوں کا غلبہ رہا ہے لیکن یہ تیزی سے بدل رہا ہے کیونکہ پوروانچل کے لوگوں کی دہلی میں آبادی کا تناسب بڑھ کر 35 فیصد تک ہو گیا ہے۔ واضح رہے کہی جے پی کے سربراہ وریندر سچدیوا پنجابی ہیں۔ دہلی کے وزیر اعلیٰ اور عآپ کے کنوینر اروند کیجریوال کا تعلق ویش برادری سے ہے جبکہ کانگریس کے صدر دیویندر یادو ان کا تعلق او بی سی سماج سے ہے لیکن جیسا کہ عآپ نے مغربی پارلیمانی حلقہ سے مہابل مشرا کو میدان میں اتارا ہے، بی جے پی نے شمال مشرقی دہلی کے پارلیمانی حلقہ سے منوج تواری کو میدان میں اتارا ہے اور ان کے مقابلے میں کانگریس کا چہرہ کنہیا کمار ہیں یعنی تینوں کا تعلق پوروانچل سے ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ دہلی کی ڈیموگرافی بدل رہی ہے اور کوئی بھی بہار کے کردار سے انکار نہیں کر سکتا۔ جعفرآباد کے دکاندار محمد شاکر کا کہنا ہے کہ ’’ی ڈیموگرافی بدل رہی ہے اور اب بہار کے لوگ دہلی میں ہر جگہ نظر آتے ہیں۔‘‘
جوں جوں دہلی کا الیکشن قریب آ رہا ہے، درج فہرست ذات کے ووٹروں کے درمیان واضح تقسیم، مسلمانوں اور غیر مسلموں کی اعلیٰ ذات کے واضح موقف نے انتخابات کو قریبی بنا دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ نتائج کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ہمیں موجودہ انتخابات کا پچھلے انتخابات سے موازنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی کیونہ 2014 کے انتخابات میں تبدیلی ایک وجہ تھی اور 2019 کے انتخابات قوم پرستی پر مرکوز تھے۔ بنیادی طور پر موجودہ انتخابات میں ایک طبقہ وہ ہے جو مذہب کے نام پر اپنی رائے دینا چاہتا ہے اور دوسرا طبقہ وہ ہے جو خود کو آئین کا محافظ سمجھتا ہے۔ دہلی میں بھی شمالی ہند کے باقی حصوں کی طرح، ہندوتوا طاقتوں اور آئین کے محافظوں کے درمیان مقابلہ ہوتا نظر آ رہا ہے جس میں بدعنوانی جیسے دیگر مسائل پیچھے چھوٹ گئے ہیں۔