سوچئے ذرا، کہ دو لوک سبھا سیٹوں کا ایک ہی نام ہو تو؟ ماہرین کہتے ہیں کہ دنوں دو مختلف ریاستوں میں ہوں تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ وہ بتاتے ہیں کہ مہاراج گنج نام کی ایک لوک سبھا سیٹ اتر پردیش میں ہے تو دوسری اس کے پڑوسی بہار میں۔ اسی طرح اتر پردیش میں ایک لوک سبھا سیٹ گونڈہ تو جھارکھنڈ میں اس کے نام سے مشابہت رکھنے والی گوڈا سیٹ ہے۔ اور ان میں سے کسی کے بھی ایک ہی نام یا ایک جیسے نام پر کسی نے کوئی شکایت نہیں کی۔
لیکن کسی ایک ہی ریاست کی دو لوک سبھا سیٹوں میں سے پہلی کا نام دوسری کو دے کر پہلی کا نام کچھ اور رکھ دیا جائے تو؟ اتر پردیش میں ایک ایسے ہی معاملہ میں ان سیٹوں کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں اور ان کے قارئین کے ساتھ ان دنوں اس طرح کے عجیب و غریب واقعات پیش آ رہے ہیں۔ آپ چاہیں تو انہیں المناک بھی کہہ سکتے ہیں۔
آئیے بات کو ٹھیک سے سمجھتے ہیں۔ 2002 میں تشکیل شدہ ہندوستان کے حد بندی کمیشن (ڈی لمیٹیشن کمیشن آف انڈیا) کی سفارش پر 2008 میں ریاست کی بلہور لوک سبھا سیت ختم کر کے جو نئی لوک سبھا سیت تشکیل دی گئی، اس کا نام اکبرپور رکھا گیا، جبکہ فیض آباد (بعد میں امبیڈکر نگر) ضلع میں 1962 میں ہی اکبرپور نام کی جو لوک سبھا سیٹ ہوا کرتی تھی اس کا نام امبیڈکر نگر رکھ دیا گیا۔
سچ پوچھیں تو یہ مشق پوری طرح بے تکی تھی کہ جس سیٹ کا نام اکبرپور ہو، اس کا نام امبیڈکر نگر رکھ کر ایک دیگر سیٹ کو اکبرپور نام دے دیا جائے۔ اس لئے کئی حلقوں میں اسے اکبرپور نام کو بلہور منتقل کرنے کے طور پر بھی دیکھا گیا۔ اس منتقلی کے بعد تمسا (جس کے ساحل پر قدیمی اکبرپور سیٹ موجود تھی) اور گنگا جمنا (جس کے دوآب میں نئی اکبرپور سیٹ واقع ہے) دریاؤں میں کافی پانی بہہ چکا ہے۔ پھر بھی اس کے سائڈ افیکٹ ہیں کہ ختم ہی نہیں ہو رہے۔
سب سے بڑا سائڈ افیکٹ تو یہ ہے کہ کئی مرتبہ باہر سے آئے اور اس سب سے انجان صحافی اکبرپور نامی ان دونوں نئی پرانی سیٹوں کو ایک سمجھ کر ان سے منسلک اطلاعات میں گھال میل کرتے ہوئے عجیب و غریب نتائج نکال لیتے ہیں۔
مثال کے طور پر گزشتہ دنوں ایک صحافی نے اپنی رپورٹ میں لکھ دیا کہ اتر پردیش کی سابق وزیر اعلیٰ اور بی ایس پی کی سپریمو مایاوتی بلہور کو ختم کر کے بتائی گئی اکبرپور لوک سبھا سیٹ سے چار مرتبہ الیکشن لڑ چکی ہیں۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مایاوتی نے امبیڈکر نگر ضلع کی اس اکبرپور لوک سبھا سیٹ سے 1998، 1999 اور 2004 کے تین الیکشن لڑے اور جیتے تھے جو اب وجود میں ہی نہیں رہ گئی ہے۔ تاہم ایک وقت میں وہ اس سیٹ پر سب سے زیادہ سرگرم رہتی تھیں۔
جہاں تک نئی اکبر پور سیٹ کی بات ہے، اس پر تو ابھی تک مجموعی طور پر چار انتخابات بھی نہیں ہوئے ہیں۔ چوتھا اس مرتبہ ضرور ہونے جا رہا ہے۔
لیکن گھال میل اتنا سا ہی نہیں ہے۔ نئی اکبرپور سیٹ میں کانپور و کانپور دیہات ضلعوں میں موجود بٹھور، کلیان پور، مہاراج گنج، گھاٹم پور اور اکبرپور رنیاں نامی پانچ اسمبلی حلقے شامل ہیں لیکن کئی صحافی ان اسمبلی سیٹوں کے نام گوسائیں گنج، کٹیہری، ٹانڈا، جلال پور اور اکبرپور بتا دیتے ہیں، جن میں سے چار پرانی اکبرپور لوک سبھا سیٹ کا حصہ تھے اور اب پانچوں امبیڈکر نگر سیٹ کا حصہ ہیں۔
گزشتہ دنوں تو حد ہی ہو گئی جب ایک صحافی نے لکھ دیا کہ بلہور کو ختم کر کے بنی اکبرپور سیٹ سے 1962 کے انتخاب میں کانگریس کے پنا لال الیکشن لڑے اور جیتے تھے۔ 1967 میں ریپبلک پارٹی اور انڈیا کے ٹکٹ پر رام جی رام کو جیت حاصل ہوئی تھی اور 1971 میں وہ ہی کانگریس کے امیدوار کے طور پر جیتے تھے۔ اسی طرح 1977 میں جنتا پارٹی کے منگل دیو وشارد تو 1980 میں جنتا دل سیکولر کے رام اوتھ رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے تھے۔ 1996 میں بی ایس پی کے گھن شیام چندر کھروار تو 1998 میں بی ایس پی کی ہی سابق وزیر اعلیٰ مایاوتی جیتی تھیں۔ مایاوتی نے 1999 اور 2004 میں ابھی انتخاب جیتا اور ہیٹ ٹرک بنائی تھی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی نتیجہ بلہور کو ختم کر کے تشکی لدی گئی اکبرپور سیٹ کا نہیں ہے۔ یہ سب کے سب اس اکبرپور سے وابستہ ہیں، جو اب امبیڈکر نگر کہلاتی ہے۔
لیکن مذکورہ صحافی نے نئی اکبرپور سیٹ کے حوالہ سے ان کا ذکر کرتے ہوئے بھی یاد رکھنا بھی گوارا نہیں کیا کہ 2009 کے لوک سبھا انتخابات سے قبل تو وہ سیٹ وجود میں ہی نہیں تھی۔
البتہ، اس نے اس کے بعد کے نتائج کا صحیح بیورہ دیا، 2009 میں راجارام پال کانگریس کے امیدوار کے طور پر انتخاب جیتے۔ 2014 کے عام انتخابات میں بی جے پی کے دیویندر سنگھ ’بھولے‘ نے بی ایس پی کے انیل کمار شکلا وارثی کو 278997 ووٹوں سے ہرایا۔ 2019 میں بی جے پی کے دیویندر سنگھ بھولے نے پھر جیت درج کی۔
بہرحال، حالت یہ ہو گئی کہ لوگ مذاق میں کہتے لگے ہیں کہ ایسا ہی رہا تو کون جانے ایک دن یہ فرق بھی ختم ہو جائے کہ پرانی اکبرپور سیٹ سماجوادی پارٹی کے لیڈر ڈاکٹر رام منوہر لوہیا کی جائے پیدائش تھی اور نئی کے ڈیراپور علاقہ میں سابق صدر رام ناتھ کووند کا آبائی گاؤں موجود ہے۔ یہ ٹھکانہ کہ بھائی لوگ کب ان دونوں کا بھی گھال میل کر ڈالیں۔